اپنی دنیاوی زندگی میں وہ اپنے بہت سے مُعین ومددگار اور حامیوں کا محتاج ہے، دوستوں، بھائیوں، بہی خواہوں اور بے شمار ساتھیوں کے تعلقات کے ساتھ خوش گوار زندگی جکڑی ہوئی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام میں بھی بندے کو اپنے شرکائے کار، ہاتھ بٹانے والوں اور مدد کرنے والوں کی ضرورت ہے، تاکہ ایک خدا کے ماننے والے، ایک رسول کے امتی، ایک کتابِ مقدّس کے قانون کے پابند اور ایک دین کے پیروکار اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ایک پاک جگہ جمع ہوں، اور ایک مقصد کی خاطر عاجزی، تواضع اور ذلت ومسکنت کا اظہار کریں، اور پروردگارِ عالم سے حصولِ مقصد کے لیے دعا اور مناجات کریں اور منظم ہو کر شیطان رجیم کا مقابلہ کریں۔ کیوں کہ اگر ہر ایک نے دوسرے کی پشت پناہی نہ کی، منظم ہو کر صف بستہ نہ آئے، تو دشمن کا لشکر منتشر اور پرا گندہ افراد کو موقع پاکر شکست دے سکتا ہے۔
پھر یہ تنظیم کھوکھلی نہ ہو، بلکہ ہر پہلو اور ہر اعتبار سے مستحکم اور ٹھوس ہو، ظاہری اجتماع کے ساتھ باطنی اجتماع بھی پختہ تر ہو، جسم کی صفوں کی درستی کے ساتھ دل کی صفوں کی درستی بھی ہو، اور ظاہر کی پاکی وصفائی سے بڑھ کر باطن کی پاکی اور صفائی حاصل ہو۔ ایک ہی اصول کے سب پابند اور ایک ہی امیر یا امام کے سب تحت میں ہوں۔
تدریجی ترقی:
چناں چہ اسلام نے اس کا ایسا ہی مستحکم نظام قائم کیا ہے، مسجد کے نام سے ایک خاص گھر بنا دیا گیا ہے، جس میں کسی خاص شخص کی نہ ملکیت ہوتی ہے اور نہ اس کا شخصی قبضہ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا گھر کہلاتا ہے، اس میں سارے مسلمان برابر کے شریک ہیں۔1 اجتماع کے خاص خاص وقت متعین کر دیے گئے ہیں، تاکہ ایک ہی وقت میں دنیا کے سارے اراکینِ اسلام اپنی اپنی اس قدرتی اسمبلی میں جمع ہو جائیں۔ اور پھر کس طرح؟ کہ سب مل کر ایک امام کے پیچھے ایک ساتھ شانہ سے شانہ ملاکر کھڑے ہو جائیں، اٹھنے بیٹھنے، کھڑے ہونے اور تمام حرکت وسکون میں اسی ایک کی پیروی کریں، نہ کوئی امام سے پہلے جھک سکتا ہے، نہ اس سے پہلے قیام وقعود کرسکتا ہے اور نہ کوئی ایسی حرکت کرسکتا ہے جو اس کے خلاف ہو۔ سب کے سب چاہے امیر ہوں، چاہے غریب، بادشاہ ہوں کہ گدا، اسی کی متابعت کرتے ہیں، اور یک جائی اظہار بندگی کرتے ہیں، اور یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہیں، ورنہ کم سے کم یہ کہ وہ تو ہمیں ضرور دیکھ رہا ہے۔
پورے ہفتہ کے بعد ایک مخصوص دن پہنچا تو ایک قدم اور بڑھایا، محلہ محلہ اور بستی بستی