باہر کے رہنے والے ہو۔1
حضرت عمر ؓ اس معاملے میں بہت سخت تھے، مسجد کی معمولی بے حرمتی کبھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ چناں چہ لڑکوں کو بھی مسجد میں کھیلتے دیکھتے تو درہ سے خبر لیتے، اور عشا کے بعد بھی مسجد کی پوری خبرگیری رکھتے۔ ’’نسائی‘‘ میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے کسی کی بلند آوازی سن لی، اس پر آپ نے تیز ہو کر فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ کہاں ہو؟2
فاروقِ اعظم ؓ کا اہتمام:
فاروقِ اعظم ؓ نے انہی وجوہ کی بنا پر مسجد کے ایک کنارے ایک چبوترہ بنوادیا تھا،
جس کا نام حدیث میں بطیحا آتا ہے، اور اس کے بنوانے کے بعد اعلان کردیا کہ جس کو شعر پڑھنا1 ہو یا اور کوئی ایسی بات کرنی ہو، مسجد سے نکل کر وہاں چلا جائے، مسجد میں اس طرح کی کوئی بات نہ ہونے پائے۔
اس باب میں اختلاف ہے کہ بلند آوازی مطلقاً حرام ہے یا مقید طور پر، اکثریت کی رائے تفصیلی ہے کہ اگر دینی ودنیوی ضرورت ہو جس میں مسلمانوں کا مفاد ہے، تو جائز، ورنہ ناجائز۔ جواز کی دلیل میں کعب بن مالک ؓ کی حدیث پیش کی جاتی ہے جس میں مذکور ہے کہ انھوں نے ابنِ حداد سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا اور یہ مطالبہ مسجد میں ہوا۔ آں حضرت ﷺ نے اس بلند آوازی کو سنا اور آپ نے اپنے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اٹھاکر صرف یہ اشارہ فرمایا کہ ’’نصف معاف کردو‘‘۔ اور ابنِ حداد ؓ سے فرمایا کہ ’’ادا کردو‘‘۔ باقی ان دونوں کی بلند آوازی پر کوئی تنبیہہ نہ فرمائی۔2
گم شدہ کی تلاش:
گم شدہ چیز کی تلاش بھی مسجد میں جائز نہیں ہے، کہ یہ بھی مسجد کے احترام کے خلاف ہے، کیوں کہ اس میں شور وہنگامہ ناگزیز ہے، آں حضرت ﷺ نے فرمایا: