تو مسجد کی حاضری لازمی نہیں رہتی۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
ومن تأمل السنۃ حق التأمل تبین لہ أن فعلہا في المساجد فرض علی الأعیان، إلَّا لِعارض یجوز معہ ترک الجمعۃ والجماعۃ، فترک حضور المسجد لغیر عذر کترک أصل الجماعۃ لغیر عذر۔ (کتاب الصلاۃ: ۱۰۶)
جن لوگوں نے سنت میں پورے طور پر غور وفکر کیا ہوگا ان پر یہ بات منکشف ہوگئی ہوگی کہ نماز باجماعت کی ادائیگی مسجد میں فرضِ عین ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسا عارض درپیش آجائے کہ جمعہ اور جماعت کا ترک جائز ہو جائے، تو دوسری بات ہے، ورنہ بغیر عذرِ شرعی مسجد کی حاضری کا ترک ایسا ہی ہے کہ کوئی بغیر عذرِ شرعی اصل جماعت چھوڑ دے۔
ان کی یہ رائے متعدد حدیثوں کے اسلوبِ بیان کے پیش نظر ہے، اگر ان کے حنبلی ہونے کی وجہ سے فرضِ عین ہونے کو نہ بھی مانے، تو اس کے وجوب اور اہم ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے، کیوں کہ یہ وہ چیز ہے جس کو خود نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی بھر نبھایا، اور مسجد حاضر نہ ہونے والوں پر شدید ترین غصے کا اظہار فرمایا۔ آپ کے صحابہ کرام ؓ کا عمل بھی یہی رہا، جس کی تفصیل ابھی آرہی ہے۔
افضل الرسل کا دستور:
آں حضرت ﷺ کے متعلق حافظ ابنِ قیم ؒ جیسے ذمہ دار کا بیان ہے:
أن ہدیہ کان فعل الفرائض في المسجد إلا لعارض من سفر أو مرض أو غیرہ مما یمنعہ من المسجد۔ (زاد المعاد: ۱/۸۱)
رحمت عالم ﷺ کا دستور یہ تھا کہ آپ فرض نمازیں مسجد میں ادا کرتے، مگر یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی جو مسجد سے روک دیتی، جیسے سفر اور بیماری وغیرہ (جس میں بالکل طاقت نہیں رہتی)۔
قیامت کے دن دیدارِ الٰہی جو سب سے بڑی نعمت ہے، اس کے لیے جب اجتماع ہوگا تو ان میں ان لوگوں کو جو بپابندی مسجد جاکر امام کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ممتاز جگہ حاصل ہوگی۔ (زاد المعاد: ۱/۱۳)
ایک صحابی کا وعظ: