گویا اس مسجدِ محترم کے معمار اور مزدور بھی خود یہی داعیانِ اسلام اور اساطینِ امت تھے۔1
ان خدا پرستوں نے آپ کی نگرانی میں جو مسجد تیار کی وہ سارے تکلّفات اور آرایش سے پاک تھی، نہ نقش ونگار تھے، نہ جھاڑ اور فانوس، نہ چمکتے دمکتے پتھر تھے اور نہ آنکھیں خیرہ کرنے والا رنگ وروپ، بلکہ مسجدِ نبوی سادگی کی آپ اپنی مثال تھی، کچی اینٹوں کی دیواریں، کھجور کے پتوں کی چھت اور کھجور ہی کے ستون۔2
اول اول ان مسجدوں کی بنیادیں اشارہ ہیں کہ مومن کو جہاں کہیں قابو بخشا جائے وہ سب سے پہلے، بلکہ اپنے گھر سے بھی پہلے عبادت گاہ تیار کریں، اور ان کو اپنے اجتماعی نظام کی روح اور اپنی دینی مرکزیت کی جان سمجھیں۔ اور ان میں نمونہ ہے کہ ایسی سادہ ہوں کہ ہر امیر وغریب اپنی آبادی میں بآسانی اس مقدّس گھر کو قائم کرسکے۔
مسجدِ نبوی کی حیثیت:
مرکزِ اسلام کی یہ مسجد صرف رسمی مسجد نہ تھی، بلکہ اسلام کا ناقابلِ تسخیر قلعہ تھی، جہاں دین ودنیا کے سارے قوانین ترتیب پاتے تھے، لشکرِ اسلام کے قواعدِ جنگ بتائے جاتے تھے، یہیں سے جہاد میں فوج روانہ کی جاتی تھی، وفود یہیں اترتے تھے، اسی میں مدینہ کا پہلا دارالعلوم اسلامی تھا، اسی میں رسول الثقلین ﷺ کا دربار لگتا تھا، اسی میں فصلِ خصومات سنائے جاتے تھے اور اسی میں مجرمین کو قید بھی کیا جاتا تھا۔ گویا دارالشریعت (پارلیمنٹ) دارالعلوم (یونیورسٹی) دارالعسکر (فوجی چھاؤنی) اور دار الحبس (جیل خانہ) سب کا کام اسی مسجدِ مقدّس سے لیا جاتا تھا، اور اسی میں وہ متبّرک حصہ بھی ہے جس کو حدیث میں: رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ فرمایا گیا ہے، جس کی تشریح میں مختلف باتیں کہی گئی ہیں۔
مگر محققین نے اسے اس کے ظاہر پر محمول کیا ہے کہ زمین کا یہ حصہ واقعی جنت سے لایا
گیا ہوگا۔ جس طرح حجرِ اسود حضرت ابراہیم ؑ کے لیے جنت سے لایا جانا کہا جاتا ہے، اسی طرح یہ حصہ رحمتِعالم ﷺ کے لیے اتارا جانا ممکن ہے، جن کو ہماری آنکھیں اپنی طبعی ظلمت کی وجہ سے تمیز کرنے سے قاصر ہیں۔1
اسی مسجدِ محترم کے باب میں آپ کا ارشاد ہے: