اب یہ بحث بہرحال ہے کہ اس مسجد کا کیا حکم ہے؟ اسے مسجدیت سے خارج قرار دیا جائے یا نہیں؟ حکیم الامت مولانا تھانوی اپنے رسالہ ’’دأب المساجد في آداب المساجد‘‘ میں لکھتے ہیں:
دوسرا حکم اس کا مسجد نہ ہونا ہے، اس میں دلیل کی حاجت ہے، صرف مولانا عبدالحی ؒ کا قول حجت نہیں۔ مسجد کا احکام میں مسجد ہونا مسئلہ فقہیہ ہے، سو کتبِ فقہ میں تحقیقِ مسجدیت کے لیے مال کا حلال ہونا کہیں مذکور نہیں، جیسے کوئی شخص بنیتِ ریا وقف کرے تو گو وہ وقف مقبول نہ ہو، بلکہ خوفِ معصیت ہے، لیکن وقف صحیح ہو جاتا ہے، اسی طرح گو یہ مسجد مقبول نہ ہو، بلکہ خود معصیت ہے، لیکن احکام میں مسجد ہو جائے گی، مثلاً: اس کی بیع جائز نہیں، اس میں حائض وجنب کا داخل ہونا جائز نہیں، اس میں بول وتغوط (پیشاب وپائخانہ) درست نہیں۔ اب صرف یہ بات باقی ہے کہ اس کو کیا کیا جائے؟ سو اس کا حکم کہیں منقول نظر سے نہیں گزرا، لیکن قواعد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بند کر کے محفوظ کردیا جائے، نہ اس میں نماز پڑھیں، نہ اس کی بے حرمتی کریں۔ البتہ اگر زمین حلال ذریعے سے حاصل ہوئی ہے اور صرف ملبہ حرام ہے، تو بجائے اس کے دوسرے ملبہ سے اس کی تعمیر کرا دینا جو ازِ انتفاع کے لیے کافی ہو جائے گا۔ اور ایسی مسجدِ مذکور کی جو مالِ حرام سے بنائی ہوئی ہے، ایسی مثال ہے جیسے نعوذ باللہ کوئی شخص ناپاک سیا ہی سے قرآنِ مجید لکھ لے، اس میں نہ تلاوت جائز ہے اور نہ اس کی بے ادبی جائز ہے، بلکہ دفن کر دیا جائے۔ باقی مسئلہ نازک ہے، دوسرے علما سے بھی نظر کرالی جائے۔
یہ تفصیل مولانا ؒ نے زانیہ اور مغنیہ کی مسجد پر لکھی جس کی کمائی حرام ہوتی ہے، یہی تفصیل دوسرے مالِ حرام سے بنائی ہوئی مسجد کی بھی ہوگی۔
گندہ مال سے تعمیر میں اجتناب:
مسجد میں مالِ حرام کے سوا ایسے مال سے بھی اجتناب ضروری ہے جس میں کسی طرح کی شرعی کراہیت پیدا ہو جائے، تاکہ مسجد اوساخ سے منزّہ کہی جا سکے، اور مسلمانوں کے اجتماع کے مرکزی گھر ہر طور پر ایک اعلیٰ نمونہ بن سکیں۔
علما نے اسی وجہ سے لکھا ہے کہ مسجد میں ایسے مسلمان بھنگی کی کمائی لگانا درست نہیں ہے جس کی کمائی سوائے پاخانہ اٹھانے کی اجرت کے نہیں ہے،1 کیوں کہ حدیثوں میں اسی طرح کی کمائی کو کراہت آمیز کہا گیا ہے۔ اسی طرح زکاۃ یا زکاۃ کے حکم میں جو مال ہے، اس کا لگانا بھی مسجد میں جائز نہیں ہے،2 کیوں کہ اس طرح کے مال میں حکماً ایک طرح کی گندگی ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ تعمیرِ مسجد کارِ ثواب ہے، مگر تعمیرِ مسجد میں چند امور کا لحاظ از بس ضروری ہے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا، کیوں کہ یہ چیزیں وہ ہیں جو مشکاۃِ نبوت سے مستخرج ہیں۔