صَلَاۃٌ فِيْ مَسْجِدِيْ ہَذَا خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاۃٍ فِیْمَا سِوَاہُ إلِاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (البخاري)۔
میری اس مسجد میں نماز ہزار نمازوں سے بہتر ہے دوسری مسجدوں کے اعتبار سے، بجز مسجدِ حرام کے۔
مسجدِ مکہ اور مدینہ کی باہمی فضیلت:
اس باب میں علما مختلف ہیں کہ مسجدِ حرام ومسجدِ نبوی میں کس کو فضیلت حاصل ہے، بلکہ یوں کہیے کہ مدینہ اور مکہ میں کس کو فضیلت ہے۔ یہ تو اجماعِ امت اور اتفاقِ علما سے ثابت ہے کہ موضعِ قبرِ رحمت عالم ﷺ تمام زمین وآسمان سے افضل ہے، جس طرح آپ ساری کائنات سے اشرف وافضل تھے اسی طرح آپ کا روضۂ اطہر بھی تمام سے افضل واشرف ہے، پھر کعبۂ مکرمہ کو (سوائے قبہ محترم) تمام پر فضیلت حاصل ہے۔ باقی مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی، یا مکہ اور مدینہ میں اکثر علما مسجدِ حرام کی فضیلت کے قائل ہیں، جس کی حدیث سے بھی تائید ہوتی ہے۔ مگر امام مالک ؒ فرتے ہیں کہ مسجدِ نبوی کو فضیلت حاصل ہے، کیوں کہ یہ محترم ومقدّس مسجد دس سال تک درس گاہِ نبوت اور سجدہ گاہِ رسول ﷺ رہ چکی ہے، اور اسی زمین میں آپ آرام فرما ہیں۔ محققین علما کی رائے ہے کہ من وجہٍ (مثلاً حقِ نماز میں) مسجدِ حرام کا درجہ بڑھا ہوا ہے اور من وجہٍ (مثلاً حقِ موت میں) مسجدِ رسول کا درجہ۔ 2
مگر اس بحث میں پڑنا قرینِ عقل نہیں، ان دونوں میں سے ہر ایک کی فضیلت اپنی جگہ ہمارے لیے مسلّم ہے۔ ایک مقام آپ کی پیدایش، جوانی اور نبوت کے حصول کا ہے، تو دوسرا
اشاعتِ دین اور غلبۂ اسلام کا۔ مسجدِ نبوی کو دائمی قربت حاصل ہے تو مسجدِ حرام کو قبلہ وکعبہ اور مرجعِ عام ہونے کی فضیلت حاصل ہے، اس کی عظمت کا یہ حال ہے کہ قرآنِ پاک میں اس کا تذکرہ بار بار آیا ہے، اور اسے {مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَO}1 کے معزز خطاب سے سرفراز کیا گیا ہے۔ ہم گناہ گاروں کے لیے دونوں ہی فیوض وبرکات کے منبع اور سرچشمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ زیارت نصیب فرمائے۔ باقی علما ئے احناف کا فیصلہ یہ ہے: افضل مسجدِ مکہ، پھر مسجدِ مدینہ، پھر قدس، پھر قبا۔2