تحریر فرماتے ہیں:
یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس محترم گھر (بیت اللہ) کی بنیاد ابتدائً عہدِ آدم ؑ میں پڑی، اس کے بعد برابر یہ مقدس مقام انبیا وصلحا کا معبد اور قبولیتِ دعا کا مرکز رہا۔ آپ جب جنت سے زمین پر ڈالے گئے تو التجا کی: خدایا! آسمان کی طرح یہاں بھی کوئی گھر ہو جہاں تسبیح وتہلیل کی گونج رہے۔ یہ درخواست مقبولِ بارگاہ ہوئی اور نشان دہی فرما دی گئی، اور اسی نشان پر بنیاد رکھی گئی، جو طوفانِ نوح ؑ تک موجود رہا۔ طوفان میں اٹھا لیا گیا، مگر اس کے نشانات باقی تھے، اسی کی طرف لوگ قبولیتِ دعا کے لیے رجوع کرتے رہے، تاآں کہ حضرت ابراہیم ؑ کو بنانے کا حکم ہوا، آپ نے بنانے کا ارادہ کیا تو ایک سکینہ سایہ فگن ہوا اور حضرت جبریل امین نے اس کی مدد سے خطوط کھینچے، جس پر ابراہیم ؑ نے کھود کر بنائے آدم نکالی اور اسی پر مقدّس گھر تعمیر پایا۔2
اس تفصیل سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ بنی آدم کے زمین پر قدم رکھتے ہی مسجد کی تعمیر عمل میں آئی، اور رب العزت نے پورے اہتمام سے خود اپنی نگرانی میں اس محترم مسجد کی نشاندہی فرمائی جو مسجد کی عظمت واہمیت کا بیّن ثبوت ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ روزِ اول سے ہی اسے مرکزِ وحدت قرار دیا گیا۔
مسجد کی امتیازی شان:
ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد اور دوسری مسجدیں قیامت کے دن اور چیزوں کی طرح فنانہ ہوںگی، بلکہ یہ ساری کی ساری اکٹھی ہوجائیں گی:
تذہب الأرض کلہا یوم القیامۃ إلا المساجد، ینضم بعضہا إلی بعض۔1
قیامت کے دن مسجدوں کے سوا ساری زمین فنا ہوجائے گی، صرف یہ مساجد ایک دوسرے سے مل جائیں گے۔
اس حدیث سے اتنی بات تو معلوم ہوتی ہے کہ مساجد کو امتیازی شان حاصل ہوگی اور یہ دوسری چیزوں کی طرح برباد نہ ہوں گی، باقی یہ سوال کہ سب مل ملاکر کیا ہوں گی؟ اس کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا، ہاں! دوسری حدیث کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ فردوسِ اعلیٰ کو منتقل ہو جائیں گی۔
اس قدر ثابت ہوجانے کے بعد مسجدوں کے نظامِ وحدت اور اسی کی دینی مرکزیت کی طرف جو لطیف اشارہ ہے وہ اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔