{یَعْمُرُ} کا لفظ بہت سے معنوں کو شامل ہے، کرخی ؒ فرماتے ہیں:
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ} أي بنحو البناء والتزین بالفرش والسراج وبالعبادۃ وترک حدیث الدنیا۔ (جمل: ۱/۲۷۱)
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ} کے معنی ہیں: جیسے بنانا فرش، اور روشنی سے زینت دینا، عبادت کرنا اور دنیا کی باتیں مسجد میں نہ کرنا۔
مسجد کی تعظیم وتکریم اور اس میں عبادت:
اوپر کی آیتوں میں مسجدوں کی بنیادی حیثیت ظاہر کی گئی ہے، اب اُن کے عملی پہلو پر نظر کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن سے کیا مقصد رکھا ہے اور وہ ان گھروں میں کیا چاہتا ہے، کیوں کہ کسی چیز کی تعمیر خود مقصود بالذات نہیں ہوتی، بلکہ اس کے اغراض ومقاصد اور اس کے مصالح وحکم مطلوب ہوتے ہیں۔ ارشادِ ربانی ہے:
{فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِO}1
ان گھروں میں حکم دیا اللہ نے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے اور صبح وشام اس کی پاکی بیان کریں۔
اس آیت میں {بُیُوْتٍ} سے مراد مسجدیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بیان فرمایا ہے کہ ان کی تعمیر کے بعد یہ فریضہ ہے کہ ان کی تعظیم وتکریم کا حق ادا کریں، اور اس میں یہ بھی ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہوتی رہے اور دن رات اس کی تقدیس بیان کی جائے اور ہمہ دم اُسے تسبیح وتہلیل سے آباد رکھا جائے، اگر اس میں کوتاہی ہوئی تو پھر مسجد کا حق پورا پورا ادا نہ ہوا۔ اور یہ سب اس طرح سے ہو کہ دل ودماغ پر یہ امر مستحضر رہے کہ ہم اللہ کے گھر میں ہیں، تاکہ دربارِ الٰہی کے آداب میں فرق نہ آنے پائے، بلکہ آداب کا خیال اس کی لذت کو دو چند کردے، اور اگر یہ نہ ہو تو پھر اس کو یقین کرلینا چاہیے کہ تعظیم وتکریم کے لوازمات اس کو میسر نہیں ہیں۔
بہرحال یہ بات تو روشن ہوگئی کہ مسجدوں کا وجود اس لیے عمل میں آیا کہ ان میں ذکر اللہ کی گونج ہو اور ان میں پہنچ کر رب العزت کا دھیان تازہ ہو جائے، اور جس جگہ اتنا اہم کام ہو، بلکہ اسی لیے اس کا وجود عمل میں آیا ہو، اس کی اہمیت کتنی ہوگی، یہ ہر شخص با آسانی سمجھ سکتا ہے۔