سے علیحدگی کے خواہاں کا اس کو عذر بنالیں کہ وہ ایک اور جماعت قائم کرے اور ایک دوسرا امام بنالے، اور اس طرح اختلاف کا چشمہ پھوٹ پڑے اور نظامِ وحدت درہم برہم ہو جائے۔
انتشارِ جماعت کی کراہیت:
بلاشبہ اس کلام میں جس طرف اشارہ کیا گیا ہے غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جماعت کے بنیادی مقاصد سے ہے، اور کہا جاسکتا ہے جماعت کی روح بڑی حد تک اسی میں
پنہاں ہے، یہی وجہ ہے بعض ائمۂ دین نہایت سختی سے اس طرف گئے ہیں کہ اذان وجماعت والی مسجد میں جماعتِ ثانیہ کراہت سے کسی حال میں خالی نہیں، اور فضائل صرف جماعتِ اولیٰ ہی کو حاصل ہیں۔
ہم جب نمازِ خوف کا مسئلہ سامنے رکھتے ہیں تو اور بھی مسئلۂ جماعت کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ میدانِ کا رزار میں جب دو جماعت کا حکم نہیں، تو رات دن اپنی پرسکون مسجد میں جماعتِ ثانیہ کی اجازت کیوں کر سمجھی جاسکتی ہے؟ ہاں! راستے کی مسجد ہو تو البتہ اجازت سمجھ میں آتی ہے، کہ وہاں کوئی نظم وضبط ممکن ہی نہیں۔ احادیث میں اسی طرح کا واقعہ جہاں آیا ہے، اس کی مراد یہی ہے کہ وہ گزرگاہ کی مسجد ہوگی۔ نظمِ جماعت کے سلسلے میں جو حدیث ہم نقل کر آئے ہیں، اُن میں بھی اس طرف کافی اشارہ موجود ہے کہ جماعت آں حضرت ﷺ کے زمانے میں صرف ایک ہی ہوتی تھی، اور یہی مطلوب بھی تھا۔
دلوں کی نورانیت:
جماعتِ ثانیہ کو جب جماعت کی حیثیت حاصل نہیں ہوتی، تو پھر قدرتی طور پر جماعتِ اولیٰ میں ہر شخص حاضری کی سعی کرے گا اور وہ سستی جو جماعتِ ثانیہ کے نام پر پیدا ہوسکتی ہے، راہ نہ پائے گی، اور اس صورت جماعت بڑی سے بڑی ہوگی۔ پھر ہر ایک قلب روشن ہو جائے گا، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت وطاعت کا نور ایک قلبِ مومن سے دوسرے مومن کے دل پر تو ڈالے گا، اور اس طرح ان کی روحوں کی مثال ایسی ہو جائے گی کہ چند صاف شفاف آئینے ایک دوسرے کے آمنے سامنے رکھ دیے گئے ہیں اور اُن پر سورج کی آزاد کرنیں پڑ رہی ہیں۔ جس طرح اس وقت ان آئینوں کا حال ہوتا ہے کہ ہر ایک دوسرے کو اپنے عکس سے منور کردیتا ہے، یہی حال جماعت میں شریک ہونے والی روحوں کا ہوتا ہے۔