ہو کہ مردِ مومن ان وقتوں میں مسجد جانے سے ہچکچائے، اور جماعت کی نماز ترک کر بیٹھے، اس لیے رحمتِ عالم ﷺ نے ان کی اہمیت کو اور بھی عمدہ پیرایہ میں ذہن نشین فرمایا، اور سمجھایا کہ میٹھی نیند، تیز دھوپ، سخت تاریکی اور گرمی اور سردی تم کو دھوکہ نہ دے جائے، یہ نمازیں گو منافقین پر شاق ہیں کہ ان کو لذتِ ایمان میسر نہیں، لیکن اگر ان کو ایمان کی شیرینی نصیب ہوتی اور پھر ان مشکل طلب وقتوں میں نماز باجماعت کے فضائل اور ان کے منافع کا علم ویقین ہو جاتا، تو پھر ہزار مجبوری ہوتی، پر یہ گھر میں بیٹھے نہیں رہتے، بلکہ جس طرح بھی یہ مسجد پہنچ سکتے، پہنچنے کی سعیُ پیہم کرتے۔
عشا فجر اور ظہر کی نمازوں کے اوقات جیسا عرض کیا گیا ذرا نفس کے لیے تکلیف دہ ہیں، اس لیے شریعت نے ان کے فضائل نسبتاً بڑھا کر بیان کیے، اور گرانیٔ طبع کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک موقع پر آں حضرت ﷺ نے ان وقتوں کی نماز باجماعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ یَجِدُوْا إِلَّا أَنْ یَسْتَہِمُوْا عَلَیْہِ، لَاسْتَہَمُوْا عَلَیْہِ۔ وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِي التَّہْجِیْرِ لَاسْتَبَقُوْا إِلَیْہِ۔ وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِي الْعَتَمَۃِ وَالصُّبْحِ، لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا۔ (البخاري: باب فضل التہجیر إلی الظہر)
’’لوگوں کو اگر علم ہو جائے کہ اذان پکارنے اور صفِ اول کی نماز میں کیا اجر اور فضیلت ہے، پھر وہ نہ پائیں، تو قرعہ اندازی پر اتر آئیں۔ اور اگر ان کو دوپہر (ظہر) کی نماز باجماعت کا علم ویقین حاصل ہو جائے اور پتہ لگ جائے کہ اس کا کیا ثواب ہے، تو اس کے لیے دوڑ پڑیں، اسی طرح صبح اور عشا کی نماز کا جو درجہ ہے، وہ معلوم ہو جائے، تو یہ کھسکتے ہوئے بھی آئیں۔
فضائل واجر کی کثرت:
ان حدیثوں میں جس قدر ہم غور کرتے ہیں فضائل واجر کی کثرت کا اور بھی یقین ہوتا ہے۔
ستائیس گنا ثواب کی تو وضاحت ہے، مگر الفاظِ حدیث کے ساتھ طرزِ بیان پر بھی نظر کیجیے تو معلوم ہو کہ اس متعینہ ثواب سے زیادہ بھی اور کوئی چیز ہے جس کو ہم نہیں سمجھتے، یا وہ چیز ہماری عقل سے ماورا ہے، مگر ہے گرانقدر چیز، جس کو حدیثوں میں لو یعلمون ما في جیسے جملوں سے بیان کیا گیا ہے، اور ذخیرۂ احادیث کے پیشِ نظر تو یہ فیصلہ بڑی حد تک ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ پھر یہ حدیث ’’صحیح مسلم‘‘ میں موجود ہے کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ نے آں حضرت ﷺ کا قول بیان فرمایا:
مَنْ صَلَّی الْعِشَائَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّیْلِ، وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِيْ جَمَاعَۃٍ فَکَأَنَّمَا صَلَّی اللَّیلَ کُلَّہٗ۔ (مسلم: باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔)
’’جس نے عشا کی نماز جماعت سے پڑھی تو گویا وہ آدھی رات نماز میں کھڑا رہا، اور جس نے جماعت سے صبح کی نماز پڑھی تو گویا اس نے پوری رات نماز میں گزاری‘‘۔
اس حدیث کا اس کے سوا اور کیا منشا ہے کہ ان دو وقتوں کی جماعت کی نماز کا اجر آدھی اور پوری رات کی عبادت اور نوافل کے برابر ہے، اگر ایک طرف ان نمازوں کے لیے بندوں کے دلوں پر قبضہ کرنا مقصد ہے، اور ان کو ساری دشواریوں سے