سے قرأت میں کمی کی جاسکتی ہے، خود ذاتِ بابرکت آں حضرت ﷺ سے فجر کی نماز میں معوذتین تک پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں: ’’میں آپ کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھا کہ آپ نے معوذتین کی رغبت دلائی اور اہمیت بتائی اور پھر انھیں تعلیم فرمایا، پھر مجھے خوش کرنے کے لیے ان ہی سورتوں کے ساتھ فجر کی نماز پڑھائی، اور فارغ ہونے کے بعد متوجہ ہو کر فرمایا:
یاعقبۃ، کیف رأیتَ؟۔ (المشکاۃ: باب القرائۃ)
اے عقبہ تو نے کیسے پایا۔
تعدیلِ ارکان:
ان چیزوں کے ساتھ تعدیلِ ارکان بھی ضروری ہے، یعنی رکوع، سجود اور قیام وقعود باطمینان ادا کیے جائیں۔ حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ آں حضرت ﷺ ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے اور اس قدر اطمینان سے کھڑے رہتے کہ ہم کو خیال ہوتا کہ آپ بھول گئے، اور پھر آپ سجدہ کرتے اور دونوں سجدوں کے درمیان اس طرح بیٹھتے کہ ہم کہتے تھے کہ شاید آپ کو وہم تو نہیں ہوگیا۔3
حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ آپ کا رکوع، سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع سے اٹھنا، یہ سب تقریباً برابر ہوتا، سوائے قیام کے۔1
حضرت انس ؓ کو کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ آں حضرت ﷺ کی نماز کے زیادہ مشابہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی نماز دیکھی گئی، اور ان کی تسبیحات رکوع وسجود کا اندازہ دس دس ہیں۔2
ایک دفعہ حضرت انس ؓ نے خود نبی کریم ﷺ جیسی نماز پڑھ کر لوگوں کو بتائی، جس کو حضرت ثابت بیان کرتے ہیں کہ ویسی نماز تم کو پڑھتے نہیں دیکھتا ہوں۔ وہ (انس ؓ ) رکوع سے سر اُٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے، کہ کہنے والا کہہ اُٹھتا کہ بھول گئے، اور پہلے سجدہ سے سر اٹھاتے اور بیٹھتے تو کہنے والا کہہ اُٹھتا کہ یقینا وہ آگے بھول گئے ہیں۔ 3
آں حضرت ﷺ کا فرمان ہے:
أَسْوُأَ النَّاسِ سَرِقَۃً اَلَّذِيْ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہِ۔ قَالُوا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَکَیْفَ یَسْرِقُ مِنْ صَلَاتِہِ؟ قَالَ: لَایُتِمُّ رَکُوْعَہَا وَلَا سُجُوْدَہَا۔