مسجدوں کا ایک اور نظام عیدگاہ کے نام سے:
اس ہفتہ وار اجتماع کے علاوہ سال میں دو مخصوص اجتماع اور بھی ہوا کرتے ہیں۔ ایک کو عیدالفطر کہتے ہیں اور دوسرا عیدالاضحی کے نام سے موسوم ہے۔ ان کا نظام ’’عیدگاہ‘‘ کے نام سے قائم ہے۔ اس کو مسجدوں سے بڑا گہرا تعلق ہے اور یہ مسجدوں کے نظام سے الگ نہیں کہا جاسکتا۔ عیدگاہ بہت سے شرعی احکام میں مسجد کے تابع ہے، اور اس سے بڑھ کر کہ عموماً یہ اجتماع مسجد میں بھی ہوتا رہتا ہے، فرق یہ ہے کہ یہ پنج وقتہ نمازوں میں داخل نہیں، بلکہ علیحدہ ہے، اور سال میں یہ دو نمازیں روزانہ نماز سے زیادہ پڑھی جاتی ہیں۔ شریعت میں ان نمازوں کو وجوب کا درجہ حاصل ہے، اسی وجہ سے اس کے لیے نہ اذان ہوتی ہے، نہ تکبیر۔ بقیہ شرائط تقریباً وہی ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں۔
یہ اجتماع ہفتہ وار اجتماع کی نسبت سے ذرا شاندار ہوتا ہے، اس میں اہتمام کچھ زیادہ ہوتا ہے اور عموماً اس کی ادائیگی بجائے مسجد کے باہر میدان میں ہوتی ہے۔ ایک میں صدقۂ فطر کا حکم ہے اور دوسرے میں قربانی کا، جس سے غربا، فقرا کی تھوڑی بہت امداد ہو جاتی ہے، اور اس طرح وہ بھی اس مسرت میں برابر کے شریک ہو جاتے ہیں۔
ذخیرۂ احادیث کو سامنے رکھ کر جب غور کیجیے تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس موقع سے جہاں اور بہت سے فائدے اور مصالح مقصود ہیں، وہاں شکوۂ اسلام اور شوکتِ مسلمین کا اظہار بھی ہے، اور غالباً اسی وجہ سے حکم ہے کہ ایک راستے سے جائے اور واپسی دوسرے راستے سے ہو، بلکہ ایک میں تو بآوازِ بلند تکبیر کا بھی حکم ہے۔
کتبِ حدیث میں یہ واقعہ بھی مندرج ہے کہ آں حضرت ﷺ نے عید کے موقع پر عورتوں کے اجتماع کا بھی حکم دیا ہے، حتی کہ ان عورتوں کو بھی نکلنے کا حکم ہے جو نماز نہیں پڑھ سکتی ہیں۔ اس کی وجہ بعض علما یہی بتاتے ہیں کہ شروعِ اسلام میں اس سے بڑی حد تک اظہارِ شان وشکوہ تھا، اور اب چوں کہ یہ ضرورت اس پیمانہ پر باقی نہیں رہی، اس لیے عورتوں کا اجتماع ناپسند کیا جاتا ہے، اور بعض لوگ تو اب بھی اس موقع پر خروجِ نسا کے قائل ہیں۔ تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔
اجتماعِ عیدین کی اہمیت: