مگر ہر بار غشی کا دورہ پڑتا رہا۔ مسجد کی حاضری سے جب مایوسی ہوگئی تو آپ نے صدیق اکبر ؓ کو امامت کے لیے کہلا بھیجا۔ قاصد جب یہ پیام لے کر پہنچا تو صدیق اکبر ؓ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: یا عمر صل بالناس (لوگوں کو نماز پڑھایئے) یہ سن کر فاروقِ اعظم ؓ نے آپ سے فرمایا: أنت أحق بذالک۔ (آپ ہی اس کام کے زیادہ لائق اور مناسب ہیں)۔ چناں چہ حضرت صدیقِ اکبر ؓ ہی نے امامت کی۔1
امام کے لیے کامل الفقہ ہونے کی ضرورت:
یہ واقعات شاہد ہیں کہ آں حضرت ﷺ اور آپ کے اصحابِ کبار نے واضح طور پر اس مسئلہ کو بیان کردیا کہ امامت قوم کے بہترین فرد کا حصہ ہے، اور یہ عظیم الشان ذمہ داری اس شخص پر ڈالی جائے جو ہر طرح اس عہدۂ جلیلہ کا مستحق ہو۔ نیز وہ علم وفضل اور جلالتِ شان میں اپنا نمایاں درجہ رکھتا ہو۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے مستحقینِ امامت میں ’’اعلم الناس‘‘ کو اول درجہ دیا ہے۔ اس سلسلے میں حافظ ابنِ حجر عسقلانی تحریر فرماتے ہیں:
فقد یعرض في الصلاۃ أمر لا یقدر علی مراعاۃ الصلاۃ فیہ إلا کامل الفقہ، ولہذا قدَّم النبي ﷺ أبا بکر في الصلاۃ علی الباقین، مع أن النبيﷺ نص علی أن غیرہ أقرأ منہ، کأنہ عنی حدیث: ’’أقرَؤُکُمْ أُبَي‘‘۔ (فتح الباري: ۲/۱۱۷)
نماز میں کبھی ایسی بات پیش آجاتی ہے جس کی رعایت سوائے کامل الفقہ کے اور کسی کے بس کی بات نہیں، اور یہی وجہ تھی کہ نبی کریم ﷺ نے ابوبکر ؓ کو بقیہ لوگوں پر نماز کے باب میں ترجیح دی، باوجود اس بات کے کہ آپ نے ان کے غیر کے متعلق اقرأ ہونے کی تصریح فرمائی ہے، یعنی اُبی کو تلاوت قرآن کا ماہر فرمایا ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ امام کو مسائلِ نماز سے پوری واقفیت ہونی چاہیے، تاکہ وہ نماز کو اس کے پورے حقوق کے ساتھ ادا کرسکے۔ موجودہ اصطلاحی حفاظ وقرا جو صرف قرآنِ پاک زبانی یاد کیے ہوتے ہیں، اور عموماً ضروری مسائل سے واقفیت جیسی چاہیے نہیں رکھتے، ان کو عالم پر کسی طرح امامت میں فضیلت نہیں دی جاسکتی، جیسا کہ عوام کبھی کبھی ’’یؤم القوم أقرؤہم بکتاب اللّٰہ‘‘ والی حدیث سے دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔