اذان شعارِ دین ہے:
اذان اپنی انہی خوبیوں کی وجہ سے دین کا شعار قرار پائی، اور ایسا شعارِ دین کہ اگر کوئی آبادی اسے ترک کر ڈالے تو اس سے قتال اور جہاد کا شریعت حکم دیتی ہے۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں:
أن الأذان شعار الإسلام، وأنہ لا یجوز ترکہ، ولو أن أہل البلد اجتمعوا علی ترکہ کان للسلطان قتالہم علیہ۔ (فتح الباري: ۲/۶۱)
بلاشبہ اذان شعارِ اسلام ہے، اور اس کا ترک جائز نہیں ہے۔ اور اگر اہلِ شہر اس کے ترک پر اجماع کرلیں، تو سلطان ان سے لازمی طور پر قتال کرے گا۔
ترکِ اذان پر قتال کا حکم بے وجہ نہیں ہے۔ ابن الہمام تحریر فرماتے ہیں:
لما یلزم الاجتماع علی ترکہ من استخفافہم بالدین بخفضِ أعلامہ؛ لأن الأذان من أعلام الدین۔ (فتح القدیر: ۱/۹۳)
ترکِ اذان پر اتفاق چوں کہ ان کی طرف سے دین کا استخفاف ہے اور دین کے عَلم کو گرانا ہے، اس لیے کہ اذان دین کی نشانیوں میں ہے۔
ترکِ اذان باعثِ قتال ہے:
اور کھلی بات ہے جو دین کی نشانی کو مٹائے اور دین کی خفت پر اتر آئے، اس کو دین سے تعلق اب باقی نہ رہا، لہٰذا وہ اسی قابل ہے کہ اس پر اسلامی فوج ٹوٹ پڑے۔
بعض علما نے لکھا ہے کہ اذان چھوڑنے کی صورت میں پہلے اہلِ شہر کو زدو کوب کیا جائے گا اور قید۔ اور ابھی جو نقل کیا گیا اس کا ماحصل یہ ہے کہ اس پر اسلامی فوج بھیجی جائے گی۔ مطلب یہ ہے اگر وہ قبضہ میں ہوں اور دباؤ قبول کریں، تو پہلے ضرب وحبس کو عمل میں لایا جائے گا، اور خدانخواستہ اس پر بھی سرکشی پر قائم رہیں اور اذان کے حکم کو قبول نہ کریں، تو پھر جہاد کر کے اس کو قبضے میں لانے کی سعی کی جائے گی اور سزا دی جائے گی۔
فإن المقاتلۃ إنما تکون عند الامتناع وعدم القہر، والضربُ والحبسُ إنما یکون عند قہرہم، فجاز أن یقاتلوا إذا امتنعوا عن قبول الأمر بالأذان، ولم یسلموا أنفسہم، فإذا قوتلوا، فظہر علیہم، ضربوا وحبسوا۔ (فتح القدیر: ۱/۹۳)