بلاشبہ یہ چیز بھی اہم ہے، اس لیے مسجد جب بنانے کا کوئی ارادہ کرے تو اس کو دیکھ لینا ہوگا کہ اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں، پھر ضرورت ہے تو واقعی، یا آرام طلبی کے لیے، بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اس کو نہیں دیکھتے ہیں، صرف ثواب کی نیت سے ایسا کر گزرتے ہیں، حالاں کہ یہ غلط چیز ہے، مقصد حصولِ ثواب ہی ہو تو اس کے بہت راستے ہیں، بے ضرورت تعمیرِ مسجد سے بدرجہا بہتر ہے کہ دین کے دوسرے کام سر انجام دیے جائیں، جو کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔
فرض کرلیا جائے کہ کوئی ایسی مسجد بنائے جس سے دوسری مسجد کو نقصان پہنچنے کا غالب اندیشہ ہو، تو یہ کام بجائے خیر کے شر بن جائے گا، ایک مسجد میں جو جماعت بآسانی ہو رہی تھی اس میں اس دوسری مسجد کی وجہ سے تفریق پیدا ہوجائے گی اور محلے کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا، جس کو کوئی دین دار پسند نہیں کرتا۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کے زمانۂ خلافت میں جب فتوحات کی کثرت ہوئی تو آپ نے ہر آبادی میں تعمیرِ مسجد کا حکم نافذ فرمایا، مگر ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کردی کہ کسی ایک شہر میں ایسی دو مسجدیں نہ ہوں کہ ایک دوسرے کے لیے ضرر رساں ہوں۔ ’’تفسیر کشاف‘‘ میں ہے:
عن عطاء لما فتحَ اللّٰہ الأمصار علی ید عمر ؓ أمر المسلمین أن یبنوا المساجد، وأن لا یتخذوا في مدینۃ مسجدین یضار أحدہما صاحبہ۔ (کشاف: ۱/۴۰۸)
حضرت عطا سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب عمر ؓ کے ذریعے شہروں کو فتح کیا تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ مسجدیں بنائیں، مگر اس طرح کہ ایک شہر میں دو مسجدیں ایسی نہ ہوں کہ ایک سے دوسری کو نقصان پہنچے۔
ایک محلہ میں دو مسجدیں:
ایک محلہ میں متعدد مسجدیں بنانا کسی حال میں ضرر سے خالی نہیں، یہ دوسری بات ہے کہ محلہ کی آبادی اتنی دور میں پھیلی ہوئی ہو کہ دوسرے کنارے کے لوگ نہ پہنچ سکیں، ورنہ پھر احتیاط اسی میں ہے کہ ایک محلہ میں ایک سے زائد مسجد نہ ہو، یا چند بھی ہوں تو اس طرح کہ نزدیک نزدیک نہ ہوں جس سے ایک جماعت میں انتشار پیدا ہو جائے۔
ایک مسجد کے ہوتے ہوئے اس کی بغل میں دوسری مسجد اس وقت تک نہیں بنائی جاسکتی جب تک کوئی شرعی محبوری در پیش نہ آئے، مثلاً یہ کہ پہلی مسجد تنگ ہو جائے اور اس کو وسعت دینے کی گنجائش نہ ہو، یا ایک مسجد میں اجتماع سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو۔ بغیر کسی ایسی شرعی مجبوری کے دو مسجدیں بناکر انتشار وتشتت پیدا کرنا اس اجتماعی نظام کے سراسر خلاف ہے