کرنا جائز ہے، باقی یہ مسجد اپنی بنیاد پڑنے کے دن سے ابدالآباد تک مسجد ہی رہے گی، اور تحت الثریٰ سے لے کر آسمان تک یہ حصہ مسجد ہی کے حکم میں ہوگا۔2
سامان جس کی ضرورت باقی نہ ہو:
اسی طرح جب مسجد کو فرش وغیرہ کی ضرورت باقی نہ رہی تو یہ دینے والے کو واپس مل جائے گا اگر وہ زندہ ہے، ورنہ اس کے ورثہ کو ملے گا۔ اور بعض علما کا خیال ہے اسے فروخت کر کے اس کی قیمت دوسرے شعبۂ مسجد میں صرف کی جائے گی، البتہ جب کسی شعبے میں ضرورت باقی نہ رہے تو اسے دوسری مسجد کی طرف منتقل کر دیا جائے گا۔1
اگر معطی (دینے والے) کی خواہش ہو کہ پرانی چٹائی وغیرہ صدقہ کردیں اور اس کی جگہ مسجد کو نئی دیں، تو اس کو یہ حق ہے۔ یہی چیز محلہ والے چاہیں تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ چٹائی قابلِ قیمت ہے یا نہیں، اگر اس کی قیمت مل سکتی تو اہلِ مسجد کو صدقہ کا حق نہیں ہے، ورنہ ہے۔2
جو گھاس موسمِ ربیع میں مسجد سے نکالی جائے اگر وہ بکنے کے لائق ہے، تو بیچ دے جائے، ورنہ نکالنے والا اپنے مصرف میں لاسکتا ہے۔ صاحب ’’رد المحتار‘‘ نے لکھا ہے: بعض جگہوں میں گھاس فرش کی جگہ استعمال کی جاتی ہے۔3
مردہ اٹھانے والی چار پائی مسجد کی ملکیت تھی، وہ بوسیدہ ہو کر یا کسی اور وجہ سے ناقابلِ استعمال ہوگئی، تو اسے اہلِ محلہ قاضی کی اجازت سے فروخت کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی دیباجِ مکہ مکرمہ پرانا ہو جائے تو ذاتی طور پر اسے کوئی نہیں لے سکتا ہے، بلکہ سلطانِ وقت اسے بیچے گا اور اس کی قیمت اسی پر صرف کرے گا۔
مسجد جو گر رہی ہے اس کے سامان کے ضائع ہونے، یا ظالم وجابر کے تصرف میں جانے کا خطرہ ہو، تو بیچ کر اس کی قیمت جمع کی جاسکتی ہے۔4 یہ واضح رہے کہ منہدم ہونے والی مسجد کی مرمت میں اس سے زیادہ ثواب ہے کہ نئی مسجد بنائی جائے۔5
دربارِ الٰہی کے آداب