مسجد میں پہنچ کر دیکھئے کہ لوگ جمع ہیں تو سلام کرے، اور اگر کوئی موجود نہ ہو تو اس طرح سلام کرے:
{فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃًط}1
تم جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، جو کہ دعا کے طور پر ہے، اور اللہ کی طرف سے مقرر ہے، برکت والی پاکیزہ ہے۔
مفسرین اور احکامِ قرآن بیان کرنے والوں نے اس آیت کے ضمن میں اس کو ثابت کیا
ہے جو میں نے اوپر لکھا، اور فقہائے کرام نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمایا جائے ’’موضح القرآن‘‘ شاہ عبدالقادر صاحب ؒ اور ’’أحکام القرآن‘‘ للجصاص: ۳/۴۱۴ اور عالمگیری: ۲/۲۱۵)
نماز تحیہ المسجد:
موقع ہو تو پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز تحیۃ المسجد پڑھیں، وقتی نماز کا وقت ہو یا کوئی اور وقت ہو، البتہ اوقاتِ مکروہ میں سے کوئی وقت نہ ہو، جیسے آفتاب کے طلوع وغروب کا وقت یا زوال کا۔ حضرت کعب بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ آں حضرت ﷺ نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ أَحَدُکُمْ الْمَسْجِدَ فَلَیَرْکَعْ رَکَعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ۔ (البخاري)
’’تم میں کوئی مسجد میں جب داخل ہو تو اس کو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے‘‘۔
مگر یہ تحیۃ المسجد کی نماز وقتی نمازوں میں صرف ظہر، عشا اور عصر میں پڑھی جائے گی، بقیہ دو نمازوں: فجر ومغرب میں تو اس سے پرہیز کیا جائے گا، اس لیے کہ ان وقتوں میں کوئی نفل نماز پہلے جائز نہیں ہے، مغرب سے پہلے تو گنجائش ہی نہیں، باقی فجر تو اس وقت پہلے صرف دو رکعت سنت ہیں۔
مسجد پہنچ کر کوئی بیٹھ جائے اور اس کے بعد تحیۃ المسجد پڑھنا جائز ہے، مگر اولویت کے خلاف ہے۔ امام طحاوی ؒ نے اس مسئلے کی صراحت فرمائی ہے۔1
فرض وسنت کوئی پہنچتے ہی شروع کردے تو کیا اس کے ذمہ سے تحیۃ المسجد کی نماز ساقط ہو جائے گی؟ جواب یہ ہے کہ ہاں