اسی مسجدِ حرام کو یہ شرف حاصل ہے کہ اول یوم سے یہ انسانوں کا مرجعِ عام رہی، اور جب سے عالم میں اسلام کی نورانی کرنیں پھیلیں ہر سال یہاں اسلامی عالم گیر کانفرنس ہوتی ہے، جس میں یورپ سے لے کر پچھم اور اتر سے لے کر دکھن تک کے اسلامی نمائندے شریک ہوتے ہیں، اور ایک مقام اور ایک تاریخ میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں، اور جمع بھی ہوتے ہیں، کس شان سے؟ کہ ان سب کی سرکاری زبان ایک ہوتی ہے، سب کی ظاہری ہیئت ایک سی ہوتی ہے، سب کی آواز اور پکار بھی تقریباً ایک ہی ہوتی ہے۔ یہاں ملک وقوم کا سوال مٹ جاتا ہے، نسب ونسل کا بت پاش پاش ہو جاتا ہے، ایک رشتہ سارے رشتوں پر غالب ہو جاتا ہے، مختصر یہ کہ سب ایک خاندان کے افراد بن کر جمع ہوتے ہیں۔
کون سا ایسا کام ہے جو اس عظیم الشان تاریخی اجتماع سے انجام نہ پاسکے، رحمتِ عالمﷺ نے اس عالمی مجلس سے بڑا کام لیا ہے، مکی زندگی میں بھی اور مدنی دورِ حیات میں بھی، اسی اجتماع کی برکت سے اول اول اسلام مدینہ منورہ پہنچا تھا، اور وہاں پہنچ کر پورے عالم پر چھایا تھا۔ آپ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ نے بھی اس عالمی اجتماع سے کام لیا، سیاسی بھی اور دینی بھی، اور صحابۂ کرام کے بعد بھی ہر دور میں محدثین اور علما نے اس اجتماع سے فائدہ اٹھایا، جس کی تفصیل یہاں مقصود نہیں ہے۔
اشاعت وتبلیغ کا موقعہ:
آج بھی ہم اس اجتماع سے دینی اور دنیاوی فائدے حاصل کرسکتے ہیں، یہاں اشاعتِ دین کا بڑا اچھا موقع ہے۔ لوگ سب سے علیحدہ ہو کر صرف دین کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور سب سے کٹ کر ایک مقصد کے لیے دور دراز سے چل کر آتے ہیں۔ خدا کرے مسلمانوں کی سوئی ہوئی بستی جاگے اور نظامِ مساجد کے ان اہم شعبوں پر غور وفکر کرے۔ اسی مسجدِ حرام کے باب میں قرآن کا اعلان ہے: {وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط}۔1 اور اسی کے متعلق حضرت ابراہیم ؑ کو ارشادِ ربانی ہوا تھا: {وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍO}۔ 2