اور خدمت کے لیے بڑی اہم ہے۔ قرآن کی ان دو آیتوں میں مسجد کی صفائی کا بیان باوجود اختصار کے بہت کافی ہے۔
حدیث میں فضائل:
مسجد کی صفائی کے فضائل حدیثوں میں بے شمار ہیں، یہاں اس سلسلے کی صرف چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں، جو اس مسئلے کے ثبوت کے لیے کافی ووافی ہیں۔ ایک دفعہ رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا:
عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُوْرُ أُمَّتِيْ حَتَّی الْقَذَاۃُِ یُخْرِجُہَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ۔ (المشکاۃ عن الترمذي وأبي داود: ۱/۶۹)
مجھ پر میرے امت کے اجر پیش کئے گیے، یہاں تک کہ وہ کوڑا بھی جو کسی نے مسجد سے باہر کیا تھا۔
عربی داں جانتا ہے کہ ’’قذاۃ‘‘ کے لفظ میں کس قدر فصاحت وبلاغت ہے، ’’قذاۃ‘‘ اس تنکے کو کہتے ہیں جو آنکھ میں پڑجائے۔ تنکے کے پڑنے سے جو تکلیف ہوتی ہے وہ سب جانتے ہیں، اور اسے نکالنے کی جس قدر جلد سعی پیہم کی جاتی ہے، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں، تو گویا اس لفظ کو لاکر اس طرف اشارہ کیا گیا کہ کوڑا کرکٹ مسجد کے لیے ایسی ہی اذیت کا باعث ہے جیسے تنکا آنکھوں کے لیے، اس لیے اسے جلد سے صاف کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ معمولی گندگی بھی مسجد میں نہ ہونی چاہیے۔
سرکارِ دو عالم ﷺ کی خدمتِ مسجد:
حضرت انس ؓ خادمِ رسول ﷺ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ آپ کی نظر بلغم پر پڑگئی جو قبلۂ مسجد میں کسی نے ڈال دیا تھا، یہ دیکھ کر آپ کو بڑی اذیت ہوئی اور اس اذیت وناگواری کا اثر چہرۂ مبارک پر آگیا، پھر خود اٹھے اور اپنے دستِ مبارک سے اسے صاف فرمایا، اس کے بعد صحابۂ کرام ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’لوگو! تم میں کا کوئی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے پروردگار سے سرگوشی کرتا ہے اور اس کے اور قبلہ کے درمیان رب العزت اپنی رحمت ورضا کے ساتھ جلوہ