کے کیف ونشاط میں فرق نہ آنے پائے، اور مومن کامل کے لیے تازیانہ کاکام دیتی رہے، سستی، بے رغبتی
جب کبھی ان میں قدم جمانے لگے تو اس طرح کی حدیثیں ان کو جھنجھوڑ دیں۔ چناں چہ فرمایا گیا:
لَیْسَ صَلَاۃٌ أَثْقَلَ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ مِنَ الْفَجْرِ وَالْعِشَائِ، لَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا۔ وَلَقَدْ ہَمَمْتُ أَنْ آمُرَ الْمُؤَذِّنَ فَیُقِیْمَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا یَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنَ النَّارِ، فَأُحَرِّقَ عَلَی مَنْ لا یَخْرُجُ إِلَی الصَّلَاۃِ بَعْدُ۔ (البخاري: باب فضل صلاۃ العشاء في الجماعۃ)
’’فجر اور عشا کی نماز سے بڑھ کر منافقوں پر اور کوئی نماز شاق نہیں ہے، حالاں کہ اگر ان کو ان نمازوں کی اہمیت کا علم ہو جائے تو جیسے بن پڑے دوڑے آئیں، جی میں آتا ہے کہ مؤذن کو اقامت کا حکم کردوں اور کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرے، اور خود آگ کا شعلہ لے کر نکل پڑوں اور ان کو پھونک ڈالوں جو اب تک جماعت کی نماز کے لیے نہیں نکلے ہیں‘‘۔
حافظ ابنِ حجر ؒ لکھتے ہیں:
والمراد لأتوا إلی المحل الذی یصلیان فیہ، وہو المسجد۔ (فتح الباري: ۲/۹۷)
مراد یہ ہے کہ وہ اس جگہ آئیں جہاں یہ دونوں نمازیں پڑھی جاتی ہیں اور وہ جگہ مسجد ہے۔
نظم وارتباط، باہمی اتحاد اور دلوں کے ملاپ کے لیے ضروری ہے کہ اجتماع کا مرکزی گھر ایسا ہو جہاں ہر خاص وعام بغیر کسی حیلہ بہانہ کے بآسانی آسکیں، اور اس کے لیے مسجدوں سے بڑھ کر اور کون سی جگہ ہوسکتی ہے جو خالص خدا کی ملکیت کہی جاتی ہے۔
مخصوص وقتوں کی فضیلت:
اس میں شبہ نہیں کہ نسبتاً فجر، عشا اور ظہر میں زیادہ دقتیں پیش آتی ہیں۔ سردی کے موسم میں عشا اور فجر کی نماز کو جن لوگوں کا تجربہ ہے، اچھی طرح جانتے ہیں کہ نفس پر کتنا دباؤ ڈالنا پڑتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا، پانی کی بڑھتی ہوئی سردی، راستے کی تاریکی اور نفس کی ایسے موقع پر آرام طلبی، یہ ساری باتیں مل ملاکر حوصلے کو زیر کرنا چاہتی ہیں۔ گرمی کے موسم میں صبح کی میٹھی نیند، برسات کی کالی رات اور دوسرے عوارض فجر وعشا میں رکاوٹ بن کر سامنے آتے ہیں۔
ٹھیک اسی طرح کم وبیش ظہر کی نماز بہت کٹھن ہو جاتی ہے جب کہ دھوپ کی تمازت چہرہ کو جھلس رہی ہو، آسمان انگارے برسا رہا ہو، اور ہوا آگ لیے پھر رہی ہو، انسان طبعاً اس طرح کے موقع پر سست وکاہل بن جاتا ہے۔ خطرہ ہے کہیں ایسا نہ