امام کے قریب کون لوگ ہیں:
امام کے قریب ان لوگوں کو کھڑے ہونے کو کہا گیا ہے، جن لوگوں میں نیابت کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے، تاکہ ضرورت کے وقت امام کی جگہ اس کے فرائض وہ انجام دے سکیں۔ حدیث میں بھی اس کی طرف اشارہ ہے، ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
لِیَلِنِيْ مِنْکُمْ أُوْلُوا الْأَحْلَامِ وَالنُہَی، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ۔ ثلاثا۔ (مسلم: ۱/۱۸۱)
’’میرے قریب تم میں کے ذی ہوش اور صاحبِ علم وفضل کو رہنا چاہیے، اور پھر جو ان کے قریب ہوں‘‘۔
شاید یہ بھی مقصد ہو کہ ایسا شخص امام سے (جو سب میں زیادہ ذی علم ہوتا ہے) طریقۂ نماز اور دوسرے مسائل بآسانی اخذ کرسکے، یا اور اس طرح کے دوسرے فوائد بھی ہوں۔ مگر اتنی بات تو عیاں ہوگئی کہ جب امام کی قربت باعثِ فضائل ہے تو صفِ اول کو اور صفوف پر یقینا فضیلت حاصل ہوگی کہ وہ امام سے قریب تر ہوتی ہے۔ چناں چہ حدیث میں ہے:
إِن اللّٰہَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی مَیَامِنِ الصُّفُوْفِ۔ (أبو داود: من یستحب أن یلي الإمام في الصف)
’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے دائیں سے دعائے رحمت شروع کرتے ہیں‘‘۔
جذبۂ ارتقا:
یہ ترغیب اس لیے بھی ہے کہ نمازی پہلے پہنچ کر صفِ اول میں جگہ حاصل کرنے کی سعی کریں، اور اس طرح فضائل اور دوسرے ذرائع سے اجر اور ثواب کے زیادہ سے زیادہ مستحق قرار پاسکیں۔ ان ساری حدیثوں کے پیشِ نظر یہ فیصلہ سہل ہو جاتا ہے کہ مسجدوں کے اس نظامِ وحدت میں ارتقا کا جذبہ اُبھارا گیا ہے، جہاد کے ایک شعبہ کی مشق کرائی گئی ہے، اور امام کی عزت افزائی کی گئی ہے جو سرداری کے فرائض انجام دیتا ہے، اور اس طرح لوگوں کو اس کے ساتھ محبت وعقیدت کی تعلیم دی گئی ہے۔