اخلاص وللہیت:
پھر اللہ کی یاد ہو تو کس طرح؟ کہ ظاہر سے زیادہ باطن پر اثر انداز ہو، یادِ الٰہی میں یہاں کسی کی ذرہ برابر آمیزش نہ ہونے پائے، اور دل اخلاص کے اتھاہ سمندر میں ڈوبا ہو۔ یادِ خدا جہاں بھی ہو، لیکن خصوصیت سے اس جگہ اور بھی خلوص وللہیت کا جذبہ کار فرما ہونا چاہیے، کہ یہ دربارِ الٰہی ہے اور محبوبِ حقیقی کا جلوہ آنکھوں کے سامنے ہے۔
{وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ}۔1
اور تم اپنا چہرہ ہر مسجد کے پاس سیدھا رکھا کرو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت مخلص بن کر کیا کرو۔
مسجدوں کی بڑائی کے ذکر کا یہ بھی ایک پیرایہ ہے کہ وہاں پہنچ کر دل میل کچیل سے پاک کرلو، اور نیت کے کل پرزے اخلاص کے آبِ زمزم سے دھو ڈالو، تاکہ کہیں سے شرک کی بو نہ آنے پائے، کیوں کہ یہ وہ دربار ہے جہاں خدا سے سرگوشی ہوتی ہے، اور وہ گھر ہے جس کو دنیا کی جنت سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہیں۔
طہارت ونفاست:
باطن میں جس عقیدہ نے جڑ پکڑلی ظاہر میں اس کے برگ وبار پیدا ہونے ضروری ہیں، جس کی عزت ہم دل میں کریں گے یقینی طور پر عمل سے اس کو ظاہر بھی کرنے کی کوشش کریں گے، یہی وجہ ہے کہ درجۂ کمال میں ایمان واسلام ایک ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف تصدیق بالجنان کا حکم ہے تو دوسری طرف عمل بالجوارح کا بھی مطالبہ موجود ہے، تو جب قرآن نے مساجد کے باطنی احترام کا حکم فرمایا، لہٰذا ساتھ ہی ظاہری اہتمام کو بھی نہ چھوڑا، ارشاد فرمایا:
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ}1
اے آدم کے بیٹو! مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس زینت پہن لیا کرو۔