متولی ان تمام شرطوں کو جب پوری کرتا ہے تب کہیں وہ اپنے عہدے کو ادا کرتا ہے۔ میں نے ایسے وقف نامے بھی دیکھے ہیں جن میں تولیت اپنے خاندان میں رکھی گئی ہے، مگر شرائط وقیود لکھ کر اس کی صراحت کردی گئی ہے کہ اگر ان شرائط وقیود کے مطابق کوئی فرد میرے خاندان کا وقف کو نہ چلا سکے، تو اس کو برطرف کر دیا جائے۔
متولی کے لیے تقریباً ہر وقف نامہ میں درج ہوتا ہے کہ وہ عاقل وبالغ ہونے کے ساتھ امانت دار ہو، دیانت دار، ذی ہوش اور اوقاف کی بھلائی چاہنے والا ہو، وقف کی آمدنی حفاظت سے خرچ کرے، ذرائع آمدنی کی حفاظت کرے، اس کو ترقی دینے کی سعی پیہم جاری رکھے۔ اور پھر وقف نامہ میں جو مصرّح شعبے ہوتے ہیں اس کے خلاف کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی لعنت سے ڈرایا جاتا ہے۔
متولی کی غفلت:
باایں ہمہ متولی کی وقف کی اصلاح وترقی سے چشم پوشی حد درجہ افسوس ناک ہے اور قصداً وقف کے انتظام میں کوتاہی ناقابلِ برداشت۔ عموماً یہ منظر کم وبیش ہر جگہ نظر آتا ہے کہ کافی آمدنی ہوتے ہوئے بھی مسجد کا نظم خراب تر ہو رہا ہے، نہ مسجد میں صفائی ہے، نہ روشنی کا انتظام ہے، فرش ٹوٹ رہا ہے، دیواریں گر رہی ہیں، وضو خانہ میں پانی ناپید ہے، اور امام ومؤذن وقت کی پابندی سے کام نہیں کرتے ہیں، مزید یہ اور غضب ہے کہ وقف نامہ کی صراحت کے باوجود امام کا انتخاب صرف مشاہرہ کی وجہ سے نامعقول ہے، ایسا امام جو خود مسائلِ ضروریہ سے واقفیت نہیں رکھتا، دوسروں کی رہنمائی کیا کرے گا۔
متولی کو یقین رکھنا چاہیے کہ کل اس کو مرنا ہے، اپنے اعمال واخلاق کا حساب دینا ہے، اور اپنی اس ذمہ داری اور پھر کوتاہی کے سوال کا جواب پیش کرنا ہے۔ اپنے فرائض سے کوتاہی وہ جرمِ عظیم ہے جس کی گرفت سخت تر ہوگی۔ یہ کیا ظلم ہے کہ وقف کی آمدنی کا نہ کوئی حساب کتاب ہے اور نہ اخراجات کے اصول وقواعد، یہ بھی پتہ نہیں کہ ہمیں کون سا کام کرنا چاہیے اور کس جگہ خرچ کرنے سے پرہیز۔ وقف کی آمدنی ایسے کام میں خرچ کرنا جس میں نام ونمود مقصود ہو اور وقف کو