اذان کے بعد دعا:
اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’جو اذان سن کر دہرائے، پھر اس کے بعد دعائے ماثورہ پڑھے، اس کے لیے بڑا درجہ ہے اور امید ہے کہ وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا‘‘۔2
اذان کے تمام کلمات تو ہو بہو وہی کہے جاویں گے، صرف حيَّ علی الصلاۃ اور حيَّ علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولا قوۃ إلا بااللّٰہ کہے گا۔ اور صبح کی اذان میں حيَّ علی الفلاح کے بعد دو مرتبہ الصلاۃ خیر من النوم کہا جاتا ہے، اس کے جواب میں سننے والا صَدَقْتَ وَبَررْتَ وَبالحَقِّ نَطَقْتَ کہے گا۔
یہ جواب ہر وہ شخص دے گا جس کے لیے کوئی مانعِ شرعی نہ ہو، جیسے: پائخانہ میں نہ ہو، جماع نہ کرتا ہو، پیشاب کرتا نہ ہو، اور اسی طرح نماز میں نہ ہو وغیرہ وغیرہ، جب اس سے فارغ ہو کر پاک ہو لے تو کہہ سکتا ہے۔ معذورین میں خطبہ سننے والا، تعلیم وتعلّم میں مشغول، کھانا کھانے والا، حیض ونفاس میں مبتلا عورت بھی داخل ہے، ان پر جواب واجب نہیں۔
کلماتِ اذان کی طرح اقامت (تکبیر کے کلمات) بھی دہرائے جائیں گے، وہاں قد قامت الصلاۃ کے جواب میں کہا جائے گا: أَقَامَہَا اللّٰہُ وَأَدَامَہَا۔3
آدابِ اذان:
اس دعوتِ اجتماع میں جو کچھ عرض کیا گیا وہ غور سے پڑھنے کے لائق ہے۔ اب کچھ آداب بھی لکھے جاتے ہیں، جن سے اس کی اہمیت پر روشنی پڑے گی۔
۱۔ کلماتِ اذان ٹھہر ٹھہر کر کہے جاویں گے اور کلماتِ اقامت جلد جلد، مگر جملوں کی ادائیگی میں ایسی جلدی نہ ہو کہ تلفظ بگڑ جائے۔