ایک پہلو سے اور غور کیجیے کہ مسجدوں کی زینت کتنی بے جا ہے، پہلے نقل کیا جاچکا ہے کہ نماز کی روح خضوع وخشوع ہے اور اس کے بغیر نماز بے جان ہے، اس زمانے میں خشوع کا یونہی فقدان ہے، مگر جب کہ نقش ونگار ہوں گے تب تو یہ چیزیں اور بھی نمازی کو لہو ولعب میں مبتلا کردے گی۔ ایک دفعہ آں حضرت ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے دروازے پر خوبصورت پردہ دیکھا تو فرمایا:
أَمِیْطِيْ قِرَامَکِ ہَذَا؛ فَإِنَّہُ لَا تَزَالُ تَصَاوِیْرُہُ تَعْرِضُ لِيْ فِيْ صَلَاتِیْ۔ (البخاري)
’’اپنے اس باریک وخوبصورت پردہ کو ہٹالو، اس کی تصویریں نماز میں مجھ کو چھیڑتی ہیں‘‘۔
دیوار تو اپنی جگہ رہی آپ نے بوٹے دار چادر بھی اپنے لیے پسند نہیں فرمائی، اور وجہ یہ بیان کی: ’’یہ چادر مجھ کو نماز میں غافل کرتی ہے‘‘۔1
اس حدیث میں جہاں حضورِ قلب پر حث اور انقیاد وخشوع کی دعوت ہے، وہاں دل میں انتشار پیدا کرنے والی چیزوں کی طرف دیکھنے کی ممانعت بھی ہے۔ امام نووی نے اسی
حدیث کے سلسلے میں لکھا ہے:
مسجد کی محراب کی تزئین اور اس کی دیواروں کو منقش بنانا ایسی چیزیں ہیں جو نمازیوں کی توجہ اپنی طرف جذب کرلیتی ہیں، لہٰذا محراب اور درو دیوار کی تزئین، نیز نقش ونگار بنانا مکروہ ہے، کیوں کہ آں حضرت ﷺ نے اپنی منقش چادر کو دور کرتے ہوئے یہی علت بیان فرمائی تھی۔1
کتنی عجیب بات ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ نے ذرا ذرا سی باتوں سے اجتناب کیا کہ کہیں دل کا خشوع متأثر نہ ہو جائے، معمولی نقش ونگار اور گل کاری کو اپنی نماز میں مخل سمجھا، تاکہ نماز کا پورا حق ادا ہو سکے، مگر آج ان کے پیروؤں کا یہ عالم ہے کہ ان سے بڑھ کر مخل چیزوں سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔
بقدرِ ضرورت اجازت:
بلاشبہ زمانے کے پیشِ نظر بعض علما نے خوبصورت ومزین مسجد بنوانے کی اجازت دی ہے، مثلاً ابن المنیر کہتے ہیں کہ زمانہ جب ترقی کا ایسا آجائے کہ لوگ اپنے رہنے سہنے کے لیے عالی شان محل اور رنگین کوٹھیاں تعمیر کرنے لگیں، تو ایسے زمانے