کہ جماعت میں انتشار پیدا ہو کر قلت پیدا ہو جائے گی، حالاں کہ یہ دن شریعت نے اس لیے مخصوص کیا ہے کہ ہفتہ میں ایک بڑی جماعت جس میں سارا شہر شریک ہو، شعارِ دین کا عظیم الشان مظاہرہ کرے اور دینی ودنیاوی فوائد سے متمتع ہو۔
خیر القرون، بلکہ قرونِ ثلاثہ تک تعددِ جمعہ کا پتہ نہیں چلتا۔1 امام احمد بن حنبل ؒ جو تیسری صدی ہجری کے ہیں، انھوں نے اپنے زمانے میں تعددِ جمعہ کا انکار فرمایا ہے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ نے اپنے رسالہ ’’تعددِ جمعہ‘‘ میں نقل کیا ہے:
ذکر الأثرم من أحمد أنہ قال: لا أعلم بلدا من بلاد المسلمین أُقیمت فیہ الجمتعان۔ إذا تقرر ہذا، وأحمد من القرن الثالث، ظہر أن خیر القرون لم یقع في زمانہم التعدد۔ (مجموعہ فتاوی عبدالحي: ۲/۱۱۴)
اثرم نے امام احمد سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ مسلمانی شہروں میں سے کسی شہر میں بھی دو جمعہ قائم کیے گئے ہوں۔ یہ جب ثابت ہوچکا اور یہ بھی معلوم ہے کہ امام احمد ؒ تیسری صدی کے ہیں، پس معلوم ہوا کہ خیر القرون میں تعددِ جمعہ واقع نہیں ہوا۔
ائمہ اربعہ عدمِ تعددِ جمعہ کے حق میں:
اکثر علمائے احناف اور دوسرے ائمہ کا قول بھی اسی کی تائید میں ہے کہ تعددِ جمعہ نہ ہونا چاہیے، بعض تو بالکل نا جائز کہتے ہیں اور بعض اولیٰ اور احوط کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ امام اعظم ؒ سے ایک روایت جواز کی اور دوسری عدم جواز کی ہے۔ عدمِ جواز والی ہی روایت کو علمائے احناف میں امام طحاوی، تمرتاشی اور صاحبِ ’’مختار‘‘ نے راجح قرار دیا ہے۔ ائمہ میں امام شافعی ؒ عدمِ تعدد کے قائل ہیں، امام مالک ؒ کی مشہور روایت بھی یہی ہے۔ اور امام احمد بن حنبل ؒ بھی اس کو راجح قرار دیتے ہیں۔ سبکی شافعی1 نے تو یہاں تک کہا ہے کہ کسی بھی صحابی، یا تابعی سے ایک شہر میں تعددِ جمعہ ثابت نہیں۔2
مروجہ تعددِ جمعہ:
تمام روایتوں پر پوری بصیرت کے ساتھ غور کرنے کے بعد فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ایک شہر میں (اگر اس میں دریا، یا بڑی نہر نہیں ہے تو) صرف ایک ہی مسجد میں جمعہ بڑی حد تک ضروری ہے، اور اگر ایسا دریا شہر میں ہے جو اِدھر سے اُدھر ہونے