طرح یہ حصہ عطا کیا ہے۔ آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ أَجْرًا فِي الصّلَاۃِ أَبْعَدُہُمْ إِلَیْہَا مَمْشًی، فَأَبْعَدُہُمْ۔ وَالَّذِيْ یَنْتَظِرُ الصَّلَاۃِ حَتَّی یُصَلِّیَہَا مَعَ الإِمَامِ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِيْ یُصَلِّیْہَا، ثُمَّ یَنَامُ۔ (مسلم: باب کثرۃ الخطی إلی المساجد وفضل المشي إلیہا: ۲۳۰)
زیادہ اجر ان کے لیے ہے جو دور دور سے چل کر آتے ہیں، اور جو مسجد آکر باجماعت نماز پڑھتے ہیں وہ تنہا نماز پڑھ کر سونے والے سے بہتر ہیں۔
اس حدیث میں ان کے لیے تسلی وتسکین کا مواد فراہم کیا گیا ہے جو مسجد سے دور رہتے ہیں، اور پڑوسی کی محرومی کا تدارک اس ثوابِ عظیم سے کیا گیا ہے جو دور سے چل کر آنے میں ہوتا ہے۔ اور اس چلنے کے ثواب کی کثرت کا یہ حال ہے کہ کوئی قدم ثواب سے خالی نہیں ہے۔
مسجد میں آمد کا ثواب:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کا بیان ہے کہ ہمارا گھر مسجد سے دوری پر تھا، ایک موقع سے میں نے ارادہ کرلیا کہ اپنا گھر بیچ ڈالوں اور چل کر مسجدِ نبوی کے پڑوس میں (جس حد تک ممکن ہو) بسوں، لیکن آں حضرت ﷺ نے مجھے اس ارادہ سے روک دیا اور فرمایا:
إِنَّ لَکُمْ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ دَرَجَۃٌ۔ (مسلم: باب کثرۃ الخطی إلی المساجد: ۱/۲۳۵)
’’بے شک تمہارے لیے ہر قدم پر ایک درجہ ہے‘‘۔
حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ مسجدِ نبوی ﷺ کے پڑوس میں کچھ جگہ خالی ہوئی، قبیلہ بنوسلمہ جو مسجد سے دوری پر آباد تھا اس کا ارادہ ہوا کہ پڑوس میں آکر آباد ہو اور پہلی جگہ چھوڑ دے، یہ خبر جب آں حضرت ﷺ کو ہوئی تو آپ ﷺ نے ان سے اُس کے متعلق سوال کیا، انھوں نے اثبات میں جواب دیا، آپ نے جب ان کا یہ ارادہ دیکھا تو ان سے کہا:
یَا بَنِيْ سَلِمَۃَ، دَیَارَکُمْ تُکْتَبْ آثَارُکُمْ۔ (مسلم: باب کثرۃ الخطی إلی المساجد وفضل المشي إلیہا: ۱/۲۳۵)
’’اے بنی سلمہ! اپنے مکانوں کو لازم پکڑو، تمہارے نشانِ قدم لکھے جائیں گے‘‘۔
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ آپ نے ان کو ترغیب دی کہ جہاں تھے وہیں رہیں، دوری سے نہ گھبرائیں، یہ دوری