یہ حکم صرف حکم ہی نہ تھا، بلکہ اس پر عمل بھی ہوا، اور ہر گوشۂ ملک میں مسجدوں کی تعمیر عمل میں آئی، جو اجتماع کے مرکزی گھر کہے جاتے ہیں۔ انھی حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جنھوں نے یہ حکم دیا تھا، بہت سی مسجدیں بنائی گئیں، مؤرخین نے ان کی تعداد چھ ہزار کے قریب لکھی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ان کو فراہم ہوسکی ہے، ورنہ امید یہی ہے کہ اس سے زیادہ مسجدیں بنی ہوں گی۔ اس تعداد میں یہ بھی تفصیل ہے کہ ان میں سے دو ہزار کے قریب جامع مسجد تھیں۔ 1
بہرحال یہ موضوع ہماری بحث سے خارج ہے، ہمیں صرف اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ اجتماع کے یہ مرکزی گھر (مسجد) بکثرت بنائے گئے۔
تعمیرِ مسجد کی ضرورت:
کوئی شبہ نہیں کہ نماز ہر پاک جگہ پڑھنے کی اجازت ہے اور امتِ مرحومہ کے لیے تمام زمین مسجد ہے، شریعتِ محمدی میں وہ تنگی نہیں ہے جو پہلی شریعتوں میں پائی جاتی تھی، بلکہ یہاں حکم ہے:
جُعِلَتِ الْأَرْضُ کُلُّہَا مَسْجِدًا وَطَہُوْرًا، وَأَیُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِيْ أَدْرَکَتْہُ الصَّلَاۃُ فَلْیُصَلِّ۔ (البخاري: باب قول النبي ﷺ جعلت الأرض إلخ)
’’تمام زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے، میری امت کے جس فرد کو جہاں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھ لے‘‘۔
بندوں کے لیے کوئی حیلہ باقی نہیں چھوڑا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت سے غافل رہیں، وقت آئے اور گزر جائے، مگر بندہ یہ بہانہ کر کے کہ ’’مسجد نہ تھی‘‘ اپنی پیشانی خدا
کے آگے نہ رکھے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں وقت آجائے وہیں وضو کر کے، یا شرعی مجبوری میں تیمم کر کے نماز ادا کرے، مسجد وہاں ہو یا نہ ہو، اس لیے کہ تمام زمین پاک ہے۔
مگر اسلام کا قانونِ عام مقتضی تھا کہ نظم وضبط اور مسلمانوں کی قوتِ اجتماعی برقرار رکھنے کے لیے کوئی ایسا نظام قائم کیا جائے جو بکھری ہوئی بھیڑ اور منتشر افراد کی شیرازہ بندی کردے، اور انتشار وتشتت کی راہ پر آہنی پھاٹک لگا دے، تاکہ نفرت وعداوت اور پھوٹ کی لعنت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے جو کسی قوم کی مٹی پلید کرنے کے لیے کافی ہے۔
چناں چہ شریعتِ مطہرہ نے مسجدوں کے نام اس اجتماعی اور دینی نظام کو قائم کیا اور اس کے قائم کرنے کا ہر ایک مسلمان کو