سوگئے۔ یہ سن کر حضرت فاروق اعظم ؓ نے فرمایا: میرے نزدیک فجر کی نماز مسجد میں باجماعت پڑھنی اس ساری رات جاگ کر عبادت کرنے سے بہتر ہے کہ صبح کی جماعت چھوٹ جائے۔1
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے بازار والوں کی ایک جماعت کو دیکھا کہ جوں ہی اذان ہوئی، سب سامان اور کاروبار چھوڑ چھاڑ مسجد چل کھڑے ہوئے، یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ہے: {رِجَالٌلا لَّا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ} (النور: ۳۷) (کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کو تجارت وغیرہ جیسی پیاری چیز بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے نہیں روکتی)2
حضرت عمر بن الخطاب ؓ کے متعلق روایت ہے کہ آپ نے ایک شخص کو جماعت کی نماز میں نہ دیکھا، اس کے یہاں تشریف لے گئے اور آواز دی، آپ کی آواز سن کر وہ شخص گھر سے نکلے۔ امیرالمومنین نے دریافت کیا: نماز میں غیر حاضر کیوں رہے؟ جواب میں کہا: حضرت میں بیمار ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا: یا امیر المومنین! اگر حضرت کی آواز کان میں نہ پڑتی تو گھر سے نہیں نکلتا۔ یا یہ کہا کہ مسجد تک چلنے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: تم نے اس کی پکار پر لبیک نہیں کہا جو سب سے زیادہ ضروری تھی اور میری آواز پر نکل آئے۔ اللہ کے بندے! اللہ تعالیٰ کی طرف جو پکارنے والا پکارتا ہے، اس کی پکار پر جس قدر دھیان ضروری ہے، میری پکار پر نہیں ۔3
انھی حضرت عمر ؓ کا کہنا ہے کہ مسجد میں نماز کے اندر اپنے بھائیوں کی تلاش کرو، کہ وہ سب جماعت میں شریک ہیں یا نہیں، اگر کسی کو نہ دیکھو تو دریافت کرو، خدانخواستہ اگر بیماری کی وجہ سے نہ آئے ہوں، تو ان کی عیادت کو جاؤ، اگر وہ اپنی صحت وتندرستی کے باوجود نہیں آئے ہیں تو عتاب کرو۔4
امام غزالی ؒ اس واقعے کے نیچے لکھتے ہیں، جماعت کی نماز میں تساہل مناسب نہیں،
پہلے لوگ جماعت کا بڑا اہتمام کرتے تھے، جو لوگ بغیر عذرِ شرعی شریکِ جماعت نہ ہوتے، ان کا جنازہ نکالا جاتا تھا، جو اشارہ تھا کہ ایسا شخص مردہ ہے، اس میں دینی روح نہیں ہے۔
حضرت سعید بن المسیب ؒ فرماتے ہیں: دس برس سے مؤذن نے کوئی آواز نہیں دی، مگر میں مسجد میں موجود رہا ہوں۔ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ دس برس سے میری جماعت کی نماز میں کوئی فرق نہ آیا۔1
مطر الوراق ؒ کہتے ہیں کہ صحابۂ کرام ؓ کے شوقِ جماعت کا یہ حال تھا کہ وہ خرید وفروخت میں مشغول ہوتے، ترازو ہاتھ میں ہوتی، مگر جو نہی اذان کی آواز کان میں پڑتی نماز کو دوڑ پڑتے۔2
عمرو بن دینار الاعور کہتے ہیں کہ میں سالم بن عبداللہ کے ساتھ مسجد جا رہا تھا، مدینہ منورہ کے بازار میں پہنچا تو دیکھا، وہ سب (تاجر) مسجد جاچکے ہیں، سبھوں کے سامان چھپے ہوئے ہیں، کوئی نگران کی حیثیت سے بھی باقی نہیں ہے، یہ منظر دیکھ کر