نظامِ وحدت کا استحکام:
پیشوا بنایا جائے تو اس طرح کہ اس کی ہر حرکت وسکون کی پیروی کی جائے، وہ جب مالکِ حقیقی کے رو برو مناجات کرے تو سب کے سب خاموشی سے ہمہ تن گوش ہو کر سنیں اور باادب سیدھے کھڑے رہیں، وہ جب اس کی عظمتِ ربوبیت کے آگے جھکے تو بے چون وچرا سب جھک جائیں اور اس کی عظمت وربوبیت کا بار بار اقرار کریں، اور وہ جب پھر سر اُٹھا کر سجدے میں گر جائے، تو بلا پس وپیش ایک ایک فرد اپنی اپنی اونچی پیشانی اس کے آگے ڈال دے اور اپنی عاجزی اور اس کی صفتِ علو کا عملی طور پر اعلان کرے۔ مختصر یہ کہ باضابطہ اس کی پیروی کی جائے، کیوں کہ ارشادِ نبوی ہے:
إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ۔ (البخاري: باب إنما جعل الإمام إلخ)
’’امام تو بس اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے‘‘۔
پیروی اور اقتدا نام ہی اس کا ہے کہ امام جو بھی کرے، ہوبہو اس کی پیروی میں وہی مقتدی اور پیروکار بھی کرے۔ اپنے امام سے پہلے کوئی بھی مقتدی جنبش نہیں کرسکتا، اور نہ کسی حرکت وسکون میں اس کی مخالفت کی اس کو گنجائش ہے۔
لا تُبَادِرُوا الإِمَاَمَ، إِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا، وَإِذَا قَالَ: وَلَا الضَّالِّیْن، فَقُوْلُوْا: آمِیْن، وَإِذَا رَکَعَ فَارْکَعُوْا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ، فَقُوْلُوْ: رَبَنَا لَکَ الْحَمْدُ۔ (مسلم: باب اہتمام المأموم بالإمام: ۱/۱۷۷)
’’امام پر سبقت نہ کرو، جب وہ تکبیر کہے تو تکبیر کہو، اور جب وہ ولا الضالین کہے تو آمین کہو، اور جب وہ رکوع کرے تو رکوع کرو، اور جب سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو۔
نظامِ وحدت کی مخالفت:
خدانخواستہ کسی نے اگر امام کی کسی حرکت وجنبش میں مخالفت کی، یا اس پر کسی رکن وغیرہ کی ادائیگی میں سبقت کی، تو پھر وہ