کہ ’’جو شخص مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھے گا اس کو کچھ نہ ملے گا‘‘۔ آپ خود بھی جنازہ کی نماز مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔
وأن سنتہ وہدیہ الصلاۃ علی الجنازۃ خارج المسجد إلا لِعذر، وکلا الأمرینِ جائز، والأفضل الصلاۃ علیہا خارج المسجد۔ (زاد المعاد: ۱/۱۴۴)
آپ کی سنت اور آپ کا دستور مسجد سے باہر نمازِ جنازہ پڑھنے کا تھا، مگر کسی عذر کے وقت، اور جائز دونوں ہی ہیں، مگر افضل جنازہ کی نماز مسجد سے باہر ہی ہے۔
اسی وجہ سے اہلِ علم نے مسجد کے اندر جنازہ کی نماز کو مکروہِ تنزیہی لکھا ہے۔ 1
نمازی کے آگے سے گزرنا:
اس کی بھی سخت ممانعت ہے کہ کوئی مصلی (نمازی) کے آگے سے گزرے، آپ نے فرمایا کہ ’’اگر نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ معلوم ہو جائے تو چالیس برس تک کھڑا رہنا پسند ہو، مگر گزرنے کی جرأت کبھی نہ ہو‘‘۔ آپ ﷺ نے نمازی کو مدافعت کی وسعت بھر اجازت دی ہے۔ اور حدیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے اس کی شناعت کا معمولی سا اندازہ ہوسکتا ہے۔ علما نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی نمازی نے اپنے آگے سے گزرنے والے کی غیر مہلک چیز سے مدافعت کی اور وہ ہلاک ہوگیا، تو بالاتفاق اس پر قصاص نہیں آئے گا، یہ الگ بات ہے کہ نمازی کو بھی احتیاط کرنا ضروری ہے۔1
عورتوں کا مسجد آنا:
بلاشبہ ابتدائے اسلام میں آں حضرت ﷺ نے عورتوں کو مسجد آنے جانے کی اجازت دی تھی، اور یہ عہدِ نبوی میں باجماعت مسجد میں نماز بھی پڑھتی تھیں، عیدین کے موقع پر ان کو عیدگاہ کی طرف نکلنے کا حکم بھی ہوا تھا، اور وہ بھی اس عمومیت سے کہ پاک وناپاک کسی کو رکاوٹ نہ تھی، مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے اظہارِ شوکت شاید مقصود