مرتب ہیں، اور ان میں ایسے کلمات بھی ہیں جن میں صراحـتاً نماز کی طرف دعوت پائی جاتی ہے۔1
اذ۱ن کی تاریخ:
اذان کی ابتدا کب ہوئی؟ اس میں محققین علمائے حدیث کا یہ فیصلہ ہے کہ دارالہجرت مدینہ منورہ میں ہوئی،2 جیسا کہ اس طرف اشارہ اوپر کی روایت میں گذر چکا ہے، قرآن کی جن آیتوں میں اذان کا ذکر ہے وہ بھی مدنی ہی ہیں:
{وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًاط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ}۔3
اور تم جب نماز کے لیے اعلان کرتے ہو تو وہ لوگ اس کے ساتھ ہنسی اور کھیل کرتے ہیں، اس وجہ سے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ بالکل عقل نہیں رکھتے۔
مفسرین نے شانِ نزول جو بیان کیا ہے اس میں نصرانی، یا یہودی کا نام لیا ہے کہ وہ تمسخر کیا کرتے تھے۔ مدینہ کا جو نصرانی أَشْہَدُ أَن محمدًا رسولُ اللّٰہ پر قد حرق الکاذب (جھوٹا جل جائے) کہتا تھا ،اس کا پورا گھر جل کر ہی مرا۔4
دوسری آیت یہ ہے اور یہ بھی مدنی ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ} الآیۃ5
اے ایمان والو! نماز کے لیے جب اذان پکاری جائے۔
اس کے بعد شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہ بات البتہ تحقیقِ طلب ہے کہ اذان کی مشروعیت کیا صرف عبداللہ بن زید ؓ کے خواب ہی پر ہوئی؟ یا اس سلسلے میں آں حضرت ﷺ کے پاس کوئی وحی بھی آئی؟ جواب یہ ہے کہ آپ کے پاس وحی بھی آئی اور وحی پیشتر آئی۔1
اذان کی عظمت:
اذان کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ یہ ایک ایسا شعارِ دین ہے جس کی وجہ سے دار، دار الاسلام کے حکم میں ہو جاتا ہے، یہی وجہ تھی کہ آں حضرت ﷺ جہاں کہیں اذان سن لیا کرتے، رک جاتے، حملہ نہیں کرتے ۔ دوسرے یہ کہ یہ اذان شعبہ ہائے نبوت سے ایک شعبہ ہے، اس لیے کہ اس میں ایک عظیم الشان عبادت اور ایک مہتم بالشان رکن کی طرف ترغیب پائی جاتی ہے۔ خیرِ متعدی اور اعلائے کلمۂ حق میں اللہ تعالیٰ کی جو خوش نودی ہے کسی اور چیز میں نہیں، اس