ضروری ہے، کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جو عنداللہ محترم ہے، اور جہاں مسلمان اپنے مولیٰ کی عبادت کے لیے اچھی سے اچھی ہیئت میں جمع ہوتے ہیں، اور حاضری کے وقت ان اعضا کو عموماً دھوکر آتے ہیں جن پر گرد وغبار کے اڑ کر پڑنے کا اندیشہ ہے۔
صفائی کا ثبوت قرآن سے:
ہاں! اتنی بات ضرور ہے کہ یہ صفائی بھی ہر چیز کی طرح اعتدال پر ہو اور افراط وتفریط سے پاک ہو، نہ اس قدر اسے بڑھا یا جائے کہ حدِتز خرف کو پہنچ جائے اور نہ ایسی بے توجہی برتی جائے کہ گرد وغبار سے اٹ جائے، اس اعتدال پر رہ کر اس کی پاکیزگی اور نفاست کا خیال از بس ضروری ہے۔
{وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِO}1
ہم نے ابراہیم واسماعیل سے عہد لیا کہ وہ دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجدہ کرنے والوں کے لیے پاک وصاف رکھیں۔
یہ آیت شانِ نزول میں گوخاص ہے، مگر بابِ احکام میں عام ہے، اور مفسرین نے اسی وجہ سے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ مسجدوں کو ہر طرح پاک وصاف رکھنا ضروری ہے۔
ظاہری، باطنی، اعتقادی، معنوی ہر اعتبار سے سے پاکی کامل ہو، نہ انجاس واصنام ہوں اور نہ عصیان وطغیان۔
پھر غور کیجیے خانۂ خدا کی طہارت اور صفائی کا حکم کن جلیل القدر نبیوں کو ہو رہا ہے؟ جو بیت اللہ اور مسجدوں کی عظمتِ شان کا بہت بڑا مظاہرہ ہے۔ حضرت مریم کی والدۂ ماجدہ نے نذر مانی تھی کہ اگر میرے لڑکا ہوا تو اسے مسجد (بیت المقدس) کی خدمت کے لیے آزاد کر دوں گی، اور یہ ایسی بات ہے جس کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے:
{اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْج اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُO}1
جب کہ عمران کی بیوی نے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! میں نے نذر مانی ہے آپ کے لیے اس بچہ کی جو میرے شکم میں ہے کہ وہ آزاد کیا جائے گا۔ سو آپ مجھ سے قبول کر لیجیے، بے شک آپ خوب سننے والے، خوب جاننے والے ہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس واقعے اور آیت کو نقل کر کے مسجد کی صفائی کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اور واقعی یہ بات مسجد کی صفائی