’’ترمذی‘‘ کی روایت اس کی شہادت میں پیش کرتے ہیں۔ اس جماعت میں نووی اور سہیلی جیسے بزرگ ہیں۔ اگرچہ صحیح یہی ہے کہ آپ نے بذاتِ خود اذان نہیں دی ہے۔ ’’ترمذی‘‘ کی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے حکم سے بلال ؓ نے اذان دی۔ ’’مسندِ احمد‘‘ میں یہ واقعہ مصرح ہے۔2 پھر بھی یہ بات تو نہیں ہے کہ آپ نے مؤذن کے لیے فضائل نہ بیان کئے ہوں، بلکہ دعا فرمائی ہے:
اَللّٰہُمَّ أَرْشِدِ الْأَئِمَّۃَ، وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِیْنَ۔ (أبو داود: باب ما یجب علی المؤذن)
’’اے اللہ! امام کو رشد وہدایت عطا فرما اور مؤذن کو بخش دے‘‘۔
اور مؤذن کے رتبہ کا بیان خود آپ کی زبان مبارک سے پہلے گزر چکا۔
اذان کا جواب:
اس مرتبہ کا یہ نتیجہ ہے کہ اسلام نے یہ پسند نہ کیا کہ کوئی اس سے محروم رہے، بلکہ سب اس کا ثواب حاصل کرلیں اور اپنی زبان سے دہرا کر ہدایتِ الٰہی کے قبول کرنے کا اقرار کرلیں۔
چناں چہ آں حضرت ﷺ نے کلمات کو دہرانے کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ ’’جو دل سے ان کلمات کو دہرائے گا جنت میں داخل ہوگا‘‘۔1
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم آں حضرت ﷺ کے ساتھ تھے، حضرت بلال ؓ نے کھڑے ہو کر اذان پکاری، جب اذان ہوچکی تو آپ نے فرمایا:
مَنْ قَالَ مِثْلَ ہَذَا یَقِیْنًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔ (المشکاۃ: باب الأذان)
’’جو یقین کے ساتھ اسی طرح کہے جنت میں داخل ہوگا‘‘۔