صحابہ کرام ؓ کا معمولِ:
ان حدیثوں سے آں حضرت ﷺ کا معمول اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے کہ آپ کے پڑھنے کا کیا دستور تھا۔ صحابۂ کرام ؓ کا طرزِ عمل بھی مقدارِ قرأت اور ترتیل میں آں حضرت ﷺ ہی جیسا رہا، اس لیے کہ یہ حضرات سراپا سوزو عشق تھے۔ چناں چہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک دفعہ صبح کی نماز میں سورۂ بقرہ پڑھ گئے، آپ سے جب کہا گیا کہ آفتاب تو اب نکلنا ہی چاہتا تھا (مطلب تاخیر اور لمبی سورت کا ذکر تھا) تو آپ نے فرمایا: آفتاب سے غافل نہ تھا۔ آپ کی مراد یہ تھی کا اس کہ خیال واندازہ بھی تھا۔ 3
حضرت عمر فاروق ؓ کا بھی کچھ یہی معمول تھا، کیوں کہ آپ کے متعلق آیا ہے کہ آپ فجر کی نماز میں سورۂ نحل، یوسف، ہود، یونس، بنی اسرائیل اور اسی طرح کی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ 4
حضرت علقمہ ؒ کہتے ہیں: میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ساتھ نماز پڑھی ہے، آپ قرأت میں ترتیل فرماتے اور صاف صاف تلاوت کرتے۔ اسی طرح عبداللہ بن عباس ؓ کے متعلق ہے کہ وہ آخری رات کی نماز میں جب قرأت کرتے تو ایک ایک
حرف علیحدہ کر کے پڑھتے۔ حضرت ابنِ مسعود ؓ فرماتے ہیں: قرآن تیز تیز نہ پڑھو جیسا شعر پڑھا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ آیت: {وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاO}1 کی تفسیر فرماتے ہیں: ’’بینہ تبیینا‘‘ (خوب صاف صاف پڑھو)۔2
موقع کا لحاظ:
اس تفصیل کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہمیشہ لمبی قرأت کی جائے، ضرورت اور مجبوری ہو تو اسے پسِ پشت ڈال دیا جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اطمینان کے وقت یہی سنت طریقہ معمول ہونا چاہیے۔ یوں ضرورت ومحبوری، یا کسی اور ضرورت کی وجہ