حکم دیا، اور دن رات کے پانچ وقتوں میں ان میں حاضری ضروری قرار دی۔ اور ان گھروں کی حیثیت ایسی رکھی کہ کسی کو آنے میں عار نہ ہو اور نہ بندگی کی ادائیگی میں شرم، اور نہ کسی کے لیے یہ گنجائش باقی رکھی ہے کہ وہ کسی کو اس گھر کی حاضری سے روک سکے۔
ان گھروں کا زیادہ تعلق عبادات سے رکھا گیا ہے، لغویات کی یہاں مطلق گنجائش نہیں ہے۔ چناں چہ مسجد کی تعریف ہی یہ کی گئی کہ مسجد اس گھر کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا ہو۔ 1 اور فقہا نے تو اس کو نماز کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے۔2
کوئی شبہ نہیں کہ بقولِ فقہا مسجد کا بڑا کام نماز کی ادائیگی ہے، مگر اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ دین کے دوسرے کام اس میں جائز نہیں ہیں، ہم شروع میں اس طرف اشارہ کر آئے ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے دین کا بہت سارا کام اسی مسجد سے لیا ہے۔ لہٰذ۱ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سلسلہ مسلمانوں کے لیے فوز وفلاح کا ذریعہ بنایا گیا ہے، جس کی تفصیل اپنے موقع پر آئے گی۔
مردِ مومن کو حقِ تعمیر:
یہاں عرض کرنا ہے کہ چوں کہ اس سلسلے کا فائدہ مسلمان سے وابستہ ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ کا گھر کہا جاتا ہے، اس لیے ان گھروں کی تعمیر کا حق بھی مخصوص طور پر ان کو ہی دیا گیا ہے
جو اللہ تعالیٰ سے عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی بھیجی ہوئی شریعت کو یقین کے ساتھ مانتے اور قبول کرتے ہیں۔ اسی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ جو لوگ کفر وشرک کا برملا قرار کرتے ہیں ان کو مسجدوں کی تعمیر کا حق نہیں ہے، اور اگر یہ کریں بھی تو مقبول نہ ہوں گی۔ بلکہ ان کی تعمیر اور ان سے متعلق امور کی انجام دہی کا حق ان کو ہے جو دل اور جوارح، ظاہر وباطن ہر طرح سے اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے سوا امرِ دین میں کسی اور سے نہیں ڈرتے ہیں۔ پھر یہ کہ وہ احکامِ الٰہی کو کسی کے خوف سے ترک بھی نہیں کرتے، نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے اور قیامت کے دن پر ان کا ایمان ہے۔1 یوں تو ہر مسلمان کو تعمیرِ مسجد کا حق ہے کہ وہ عقیدہ کے اعتبار سے پکا مسلمان ہے، مگر ان میں جو صالح ہیں ان کو زیادہ حق پہنچتا ہے۔