نبوی میں حاضر ہوا اور جو کچھ سنا تھا بیان کیا۔ آپ نے اس کی باتیں سن لیں اور اس کے بعد فرمایا: ’’ہاں! یہ درست ہے، میں نے ہی روکا ہے، اس لیے کہ تم نے مسجد میں تھوک کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو اذیت دی‘‘۔2
اس واقع سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسجد کی بے ادبی کوئی معمولی جرم نہیں ہے، یہ وہ جرمِ عظیم ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ پاک کے لیے باعثِ اذیت ہوتا ہے، اور اس جرم میں
کسی عہدہ دار کو اس کے عہدہ سے معزول کردیا جائے تو بجا ہے، بلکہ وہ اسی لائق ہے کہ اس کو جرم کا بدلہ ملنا چاہیے۔
جارُوب کَش نگاہِ نبوی میں:
ایک طرف گندہ کرنے کی سخت سزا جو اوپر مذکور ہوئی اور دوسری طرف اس کی صفائی کا یہ ثواب کہ قیامت میں اس کو اس کا گراں قدر معاوضہ عطا ہو گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سیاہ فام شخص مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، اس کا انتقال ہوگیا جس کی اطلاع آپ کو نہ دی گئی، آپ نے جب اس کو دوسرے دن نہیں دیکھا تو لوگوں سے دریافت فرمایا، آپ کو بتایا گیا کہ اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کی اچانک موت کی خبر سن کر آپ نے فرمایا: ’’تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟‘‘ پھر فرمایا: ’’اس کی قبر بتاؤ‘‘۔ چناں چہ آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ راوی کو اس کے متعلق شک ہے کہ وہ عورت تھی یا مرد تھا، مگر روایتوں کی تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت تھی اور اس کی کنیت امِ محجن تھی۔1
لوگوں نے یہ سمجھا ہوگا کہ ایک معمولی آدمی کے لیے آپ کو کیوں تکلیف دی جائے، مگر آپ کی نظر میں اس کی اس حیثیت سے بڑی وقعت تھی کہ اس کو خادمِ مسجد ہونے کا شرف حاصل تھا۔
خدمتِ مسجد ایمان کی علامت ہے: