کتنی مختلف نیتوں سے آدمی آسکتا ہے، اور پھر ہر ایک کا اجر بتایا ہے، اور تمام نیتوں کا اجر حدیث ہی سے ثابت کیا ہے۔ تفصیل دیکھنا ہو تو وہاں ملاحظہ فرمائیے۔
قرآن اور احادیث میں مسجدوں کے متعلق جو کچھ آیا ہے، امید ہے اس کا خلاصہ اس مختصر مضمون میں آگیا ہے، دانا وبینا اور عقل والوں کے لیے اس میں بڑی وسعت ہے۔
یہ جو کچھ لکھا گیا وہ یکسر مساجد کے متعلق ہے، مگر مسجد کی عظمت ایک اور طریقے سے بھی سمجھنے کی کوشش فرمائیے کہ یہ عظیم الشان دربار، دینی اور دنیوی اعتبار سے کتنا بلند ہے۔
مسجد کی قربت:
اس گھر کی بڑائی کا یہ حال ہے کہ اس کا فیضِ کرم پڑوس کو بھی نہیں محروم کرتا، رحمت کی چھینٹیں اُڑ کر اُن پر بھی پڑتی رہتی ہیں، جس سے اُن کا درجہ بھی کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ ارشادِ نبوی ہے:
فَضْلُ الدَّارِ الْقَرِیْبَۃِ مِنَ الْمَسْجِدِ عَلَی الشَّاسِعَۃِ کَفَضْلِ الْغَازِيْ عَلَی الْقَاعِدِ۔ (کنز العمال: ۴/۱۳۸)
’’مسجد سے جو گھر قریب ہیں اس کی فضیلت دور والے گھر پر ایسی ہے جیسی غازی کو گھر بیٹھنے والے پر فضیلت حاصل ہوتی ہے‘‘۔
دیکھا آپ نے کہ پڑوس کا مرتبہ بھی کتنا اونچا ہوگیا، یہ قریب اور آس پاس کے مکانات اپنے دوسرے مکانات سے سبقت لے گئے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو؟ جہاں رحمتِ الٰہی کی بارش ہوتی ہے، جو جلوہ گاہِ خدا ہے اور جس کو دنیا کی جنت کہا گیا ہے، یقینا اس کا پڑوس بھی اس سے کچھ نہ کچھ نفع اندوز ہوگا ہی۔
تسکینِ خاطر:
مگر اس کے ساتھ قدرت کا یہ انصاف بھی ہے کہ جو دور رہتے ہیں ان کو بھی محروم نہیں کیا ہے، بلکہ ان کو بھی کسی نہ کسی