(فتاویٰ عبدالحیی: ۱/۱۷۶)
فقہا نے کہا ہے کہ جس شخص میں ایسی ناگوار بو پائی جائے جس سے انسان کو اذیت ہو تو اس کا نکال دینا لازم ہے گو ہاتھ پیر پکڑ کر گھسیٹنا پڑے، ہاں! داڑھی اورسر کے بال نہ پکڑے جائیں۔
فقہا کی اس صراحت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بدن، منہ اور کپڑوں کی صفائی کس قدر ضروری ہے۔
تارِ عنکبوت:
اسی علتِ اذیت میں مکڑی کے جالے بھی آجاتے ہیں کہ آدمی طبعاً اس سے بھی تکلیف محسوس کرتا ہے، ہمارے زمانے میں اس طرف توجہ دینے کی بڑی گنجائش ہے، اس سلسلے میں فاروقِ اعظم ؓ کا قول گزر چکا ہے کہ آپ نے مسجدِ قبا کے متعلق فرمایا تھا کہ مکڑیوں کے جالے سے پاک وصاف رکھو۔
اخراجِ ریح:
اسی علت میں اخراجِ ریح بھی ہے کہ اس سے بھی بدبو پھیلتی ہے، اور جب بدبو پھیلے گی تو اذیت ضرور پائی جائے گی۔ علما نے اسی وجہ سے لکھا ہے کہ اخراجِ ریح مسجد میں مکروہِ تحریمی ہے، معتکف کو البتہ بعض علما نے معذور قرار دیا ہے، یوں اجتناب ہر حال میں اولیٰ ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ’’فرشتے نمازیوں کے لیے اس وقت دعا کرتے ہیں جب تک وہ حدث نہیں کرتے‘‘۔1
خوشبو کی دھونی: