ہر چیز کی بنیادی اینٹ نیت ہے۔ ’’إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِیَّاتِ‘‘ کی حدیث جس پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہی ہے، جس کو شرح وبسط کے ساتھ ہم اوپر لکھ آئے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ مسجد کا ارادہ کرتے ہوئے نیت پاک اور دل صاف ہو، قلب دنیاوی گندگیوں سے پاک اور منزّہ ہو، نام ونمود، ریا وسمعہ کا چور دل میں چھپانہ ہو، بلکہ دل محبتِ مولیٰ سے سر شار اور خشیتِ الٰہی سے معمور ہو، اور ایسا معمور جولرزہ برا ندام کر رہا ہو، اس لیے کہ یہاں ذرا سی پونجی کے لٹ جانے کا خوف ہے، اور اس سے بڑھ کر اندھے غار میں گر جانے کا اندیشہ۔
ایک دفعہ آں حضرت ﷺ نے جماعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا اور نیتِ صالحہ کو بتایا:
وَذَلِکَ أَنَّہُ إِذَا تَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ لَا یُخْرِجُہُ إِلَّا الصَّلَاۃُ۔ (البخاري: ۱/۶۹)
’’یہ ثواب کی زیادتی اس وقت ہے جب اچھی طرح وضو کرے، پھر مسجد کے لیے نکلے اور فقط نماز ہی کی نیت سے نکل رہا ہو‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص میری اس مسجد میں کسی خیر کی نیت سے آئے، اس کی مثال مجاہد فی سبیل اللہ کی ہے، ورنہ وہ اس شخص جیسا ہے جو دوسرے کی متاع للچائی ہوئی نگاہوں سے تاکا کرتا ہے‘‘۔1
اس حدیث سے مسئلہ صاف ہو جاتا ہے کہ ایسے شخص کو کوئی ثواب میسر نہیں ہوگا، بلکہ الٹا دکھ ہوگا۔
باوضو آئے:
گھر سے جب چلنے لگے تو پہلے وضو کرلیا جائے، کیوں کہ سنت طریقہ یہی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے جہاں جماعت کی نماز میں ثواب کی زیادتی کا ذکر فرمایا ہے، وہاں یہ مصرّح ہے کہ ثواب کی زیادتی اس وجہ سے ہے کہ وضو کیا اور اس کے بعد خالص نیت سے مسجد روانہ ہوا۔ اور انھی آداب کے ساتھ چلنے پر درجہ کی بلندی اور گناہ کی معافی کی بشارت ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
صَلَاۃُ الرَّجُلِ فِي الْجَمَاعَۃِ تُضَعَّفُ عَلَی صَلَاتِہِ فِيْ بَیْتِہِ وَفِيْ سُوْقِہِ خَمْسًا وَعِشْرِیْنَ ضِعْفًا، وَذَلِکَ أَنَّہُ إِذَا تَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الْوُضُوْئَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَی الْمَسْجِدِ لَا یُخْرِجُہُ إِلَّا الْصَّلَاۃُ، لَمْ یَخْطُ خَطْوَۃً إِلَّا رُفِعَتْ لَہُ بِہَا دَرَجَۃً، وَحُطَّ عَنْہٗ بِہَا خَطِیْئَۃً۔ (البخاري: ۱/۶۶)
مرد کی باجماعت نماز اس کی اس نماز سے جو گھر اور بازار میں پڑھی جائے، پچیس گنا بڑھی ہوئی ہے، اور وہ زیادتی اس وجہ سے ہے کہ اس نے