صرف یہی نہیں ہے کہ مسجد کو بدبو اور گندی چیزوں سے بچانا ضروری ہے، بلکہ تطہیر وتنظیف کے ساتھ تطییب بھی مطلوب ہے۔ ایک لمبی حدیث میں یہ ٹکڑا بھی آیا ہے:
اِتَّخَذُوْا عَلَی أَبْوَابِہَا الْمَطَاہِرَ، وَجَمِّرُوْہَا فِي الْجُمَعِ۔ (ابن ماجہ: ۱/۵۵)
’’ان (مسجدوں) کے دروازوں پر طہارت خانہ بناؤ اور جمعوں میں ان کے اندر خوشبو کی دھونی دو‘‘۔
یہ آں حضرت ﷺ کا حکم ہے کہ مسجدوں میں طہارت خانہ اور خوشبو کی دھونی کا انتظام کرو۔ فاروقِ اعظم ؓ ہر جمعہ کے دن دوپہر میں مسجد کے اندر خوشبو کی دھونی دیا کرتے تھے، ساتھ ہی یہ حکم بھی نکال دیا تھا کہ ہر شہر کی مسجدوں میں دوپہر کے وقت خوشبو کی دھونی دی جائے۔1
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’مسجدیں بناؤ اور ان کو پاک وصاف اور معطر رکھو‘‘۔2
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں لوبان، اگر بتی اور دوسری خوشبو جلائی جائے، جمعہ کے دن اور بھی اس کا اہتمام رکھا جائے۔
روشنی:
مسجد میں روشنی کرنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ ابوداؤد میں اس کے متعلق حدیث آئی ہے۔
وقف اور تولیت
مسجد کے لیے جو زمین وغیرہ وقف کی جاتی ہے اس سے یقینی طور پر واقف کی ملکیت بالکلیہ ختم ہو جاتی ہے، اسی وجہ سے وقف میں شرط ہے کہ واقف راستے کے ساتھ اپنی اس ملکیت سے علیحدہ ہو جائے اور لوگوں کو نماز کی عام اجازت دے دے۔ اس اجازت کے بعد اگر ایک شخص نے بھی اس میں نماز پڑھ لی تو وہ مسجد ہوگئی، واقف کی ملکیت سے علیحدگی کا فائدہ