عالمِ اسلام کی یکجائی:
اب اس کی ضرورت رہ گئی تھی کہ کوئی ایسی مسجد بھی ہوتی، جو ساری دنیا کے خدا پرستوں کو یکجا کردیتی اور یہ نظامِ مساجد اس طرح عالم گیر ہونے کا دعویٰ کرتا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نظام سے اس کمی کو بھی پورا کرتے ہیں۔ ان دوہی مخصوص دنوں میں ایک ایسا دن بھی ہر سال آتا ہے جو اس اہم کام کی انجام دہی کردیتا ہے، یہ ذی الحجہ کا مہینہ اور سنتِ ابراہیم کی یاد تازہ کرنے کا دن ہے۔
یہ اونٹوں کا ہجوم قطار درقطار کتنا بھلا ہے، ریگستانی جہازوں کا حسین منظر بے انتہا دلچسپیوں کا مرقّع ہے، ساربانوں کی حدی خوانی بدوؤں کی تانیں، سبحان اللہ! کس قدر ولولہ انگیز ہیں۔
دنیا کے کونے کونے سے ربِ کعبہ کے متوالے اس کی محبت سے سرشار فریادی بن کر آرہے ہیں، پیروانِ اسلام کے یہ قافلے مختلف خطہائے ارض سے چل کر آئے ہیں اور اس طرح داخلِ حرم ہو رہے ہیں کہ باوجود مختلف شکل وصورت کے سب کی ظاہری ہیئت ایک سی ہے، سب کی زبان پر ایک ہی طرح کی دعائیں اور صدائیں ہیں۔ ذرا ان کی ادائیں تو دیکھئے، بال پراگندہ، جسم خاک آلود، سر کھلا، نہ بدن پر سلا ہوا کپڑا، نہ کپڑوں میں خوشبو۔ سب کی گردنوں میں سادہ کفنی پڑی ہوئی ہے، سب عیش وراحت سے دور، حرمِ محترم کا احترام، اس کی ایک ایک چیز عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ نہ گھاس کاٹنے کی مجال، نہ پرند پر ہاتھ اٹھانے کی جرأت اور نہ جوں مارنے کی ہمت۔
اس عالمی اجتماع میں تمام ممالک کے نمایندے شریک ہیں، کالے، گورے، حبشی، مصری، ہندوستانی، افریقی، یورپی، ایشیائی۔ ان میں کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں سے مسلمان یہاں نہ آئے ہوں۔ مختصر یہ کہ عالمِ اسلام کے کونے کونے سے خدا پرستوں کے نمایندے آئے ہیں، سب آپس میں ملے، باہم ملاقاتیں ہوئیں، محبت والفت بڑھی، تبادلۂ خیالات کا موقع میسر آیا، ہر ایک نے دوسرے ملک والے کو غور وفکر کی نظر سے دیکھا، اور سب ایک دوسرے کے غم اور خوشی سے واقف ہوئے۔
یہ بھی ایک مسجد ہی کا فیض وکرم ہے جس نے ساری دنیائے اسلام کے نمایندوں کو ایک تاریخ، ایک دن اور ایک شہر میں جمع کردیا۔ اس مسجد کا نام مسجدِ حرام ہے جس کو بیت اللہ بھی کہتے ہیں: {وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاج}1
اسی مسجد کے باب میں سیدنا ابراہیم ؑ کو ارشادِ ربانی ہوا تھا:
{وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍO}2