باضابطہ مسجد اس وقت بنی جب کفارِ مکہ کی مسلسل ایذار سانیوں سے زندگی دو بھر ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت فرماتے ہوئے مقامِ قبا میں نزولِ اجلال فرمایا۔ یہاں کے چند روزہ قیام میں سب سے پہلے مسجد وجود میں آئی، جس کی بنیاد کی پہلی اینٹ خود ذاتِ اقدس ﷺ نے رکھی، پھر صدیق اکبر ؓ نے، پھر فاروق اعظم ؓ نے، پھر صحابۂ کرام 2ؓ نے۔ خود ہی معمار بھی تھے اور مزدور بھی، اور اس شان وشکوہ سے عہدِ رسالت کی پہلی مسجد3 تیار ہوئی۔ اس مسجد کو بارگاہِ احدیت میں ایسی مقبولیت حاصل ہوئی کہ قرآنِ پاک نے ان لفظوں میں اسی کی رفعت وعظمتِ شان کا اعلان کیا:
{لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِط}1
البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، زیادہ لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔
آں حضرت ﷺ کو اس پہلی مسجد سے ایسی والہانہ محبت تھی کہ ہر شنبہ (سنیچر) کو اس میں تشریف لاتے اور دو رکعت نماز ادا فرماتے۔2 آپ کے اصحاب ؓ نے بھی اپنے وقتوں میں اس پر عمل باقی رکھا۔ حضرت فاروق اعظم ؓ کا دستور ہوگیا تھا کہ ہفتہ میں دو دن تشریف ضرور لاتے، اور خدمت کی ضرورت محسوس کرتے تو خود خدمت انجام دیتے، حتیٰ کہ خود مسجد کو جھاڑتے تھے۔3 یہ مسجد مدینہ منورہ سے تین میل کی دوری پر ہے۔
سرکارِ مدینہ کی مسجد:
چند دنوں کے بعد قبا سے شہر کی طرف روانہ ہوئے، مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام جو کیا وہ مسجدِ نبوی کی تعمیر تھی۔ ناقہ جہاں بیٹھی تھی اسی جگہ بنی نجار کے دو یتیموں کی پڑی ہوئی (ویران) زمین تھی۔ آپ نے اس کے متعلق خواہش کا اظہار فرمایا، اس خواہش کی اطلاع پاکر وہ زمین آپ کی خدمت میں بغیر کسی قیمت کے پیش کی گئی اور آپ سے قبول کرنے کی درخواست کی گئی، مگر آپ نے یہ گوارا نہ فرمایا اور قیمتاً ہی لینے پر راضی ہوئے۔ چناں چہ قیمت دے کر زمین مذکور حاصل کی گئی، قیمت ادا کرنے کا شرف صدیق اکبر ؓ کی جیبِ خاص نے حاصل کیا۔4
اب آپ نے صحابۂ کرام ؓ کی معیت میں اسی جگہ مسجدِ نبوی کا سنگِ بنیاد رکھا، پہلی اینٹ خود ذاتِ بابرکت، سراپا رحمت ﷺ نے رکھی اور پھر آپ کے خلفا واصحاب ؓ نے۔ اینٹوں کے ڈھونے کا کام خود بنفسِ نفیس ﷺ اور صحابۂ کرام ؓ کر رہے تھے اور آپ کی زبانِ وحی ترجمان اعلان کر رہی تھی:
اللّٰہم لا خیر إلا خیر الآخرۃ فارحم الأنصار والمہاجرہ۔
بھلائی بس آخرت کی ہے، اے اللہ انصاری ومہاجرین پر رحم فرما۔