نظمِ جماعت کا نفع تشنۂ تکمیل رہ جاتا اگر اس کی شیرازہ بندی عمل میں نہ آتی، مگر حضرت حق جل مجدہٗ کی حکمتِ بالغہ ایسا کیوں کر کرسکتی تھی، چناں چہ رسول الثقلین ﷺ کے ذریعے اس کی تکمیل جیسی چاہیے تھی، رب العزت نے فرما دی، اور حمتِ عالم ﷺ نے اپنے قول وعمل سے اس کے ایک ایک شعبہ کو اجاگر اور مستحکم فرما دیا، اور اس طرح امامتِ صغریٰ کے سلکِ گُہَر میں منظم ومنضبط کر کے امامت ِکبریٰ کی شاہراہ قائم فرما گئے، تاکہ دینی نظام سے دن رات دنیاوی نظامِ حیات کا سبق تازہ ہوتا رہے اور منتشر اور پراگندہ افراد کو اجتماعی زندگی کی پوری مشق ہو جائے۔
نظامِ وحدت اور یک جہتی کی جو مثال مسجدوں کے اس دینی نظام میں ملحوظ رکھی گئی ہے، کہیں اور نہیں مل سکتی۔ توحید کا نظارہ اور اس کی نورانی شعائیں جو یہاں پائی جاتی ہیں، وہ آئندہ تفصیل سے معلوم ہوسکیں گی۔
امامت واجتماعیت:
مسجدوں کے اس قدرتی نظام میں جو مضبوطی اور استحکام ہے اور انفرادی زندگی کو جس طرح عمل سے روکا گیا ہے، وہ اپنی آپ مثال ہے، کوئی ایسا سوراخ باقی نہیں چھوڑا گیا ہے جہاں سے متفردانہ زندگی کا چشمہ پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو۔ رحمتِ عالم ﷺ نے حکم نافذ فرما دیا ہے کہ ’’کہیں تین یا دو شخص بھی ہوں، تو بھی ان میں سے ایک کو اپنا امام منتخب کرلیا جائے‘‘۔
إِذَا کَانُوْا ثَلَاثَۃً فَلْیَؤُمَّہُمْ أَحَدُہُمْ، وَأَحَقُّہُمْ بِالإِمَامَۃِ أَقْرَأُہُمْ۔ (مسلم: باب من أحق بالإمامۃ: ۱/۲۳۶)
’’تین ہوں تو بھی ان میں کے ایک کو امامت کرنی چاہیے اور حقِ امامت بڑے عالم کو ہے‘‘۔
تین کی قید اتفاقی ہے، مطلب یہ ہے کہ جب ایک سے زیادہ ہوں تو لوگوں کو چاہیے کہ ایک کو پیشوا منتخب کرلیں، اور اس کو منتخب کریں جو قرآن اور دین کا زیادہ علم رکھتا ہو۔ حضرت مالک بن الحویرث ؓ ایک مرتبہ اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے، سفر کے تذکرہ پر آپ نے ان کو حکم فرمایا:
إِذَا سَافَرْتُمَا فَأَذِّنَا، وَأُقِیْمَا، وَلْیَؤُمَّکُمَا أَکْبَرُکُمَا۔ (البخاري)
’’تم دونوں جب سفر کرو تو سفر میں نماز کے لیے اذان کو پکارو، اقامت کہو۔ اور جو بڑا ہو امامت کرے‘‘۔