قدرت کا یہ اجتماعی نظام جن لوازماتِ زندگی کو پورا کرتا ہے اور جن خامیوں کو دور کرتا ہے، وہ انجمن، پارٹی، کانفرنس اور جماعت سے پورا نہیں ہوسکتا ہے، انسان جو بھی اصول وقوانین مرتب کرے وہ ہر طبقۂ انسانی کے لیے مفید ہو ہی نہیں سکتے۔
اس اجتماع کے استحکام پر بار بار غور کیجیے، اول قرآنِ پاک نے بتایا کہ تخلیقِ انسانی کا مقصد عبادتِ الٰہی ہے،1 پھر اسلام نے اس امر کو منقّح کیا کہ اس نظام سے جو عبادت متعلق ہے وہ سب سے اہم اور عوام وخواص دونوں سے تعلق رکھنے والی ہے، مزید براں یہ کہ اس نظام سے نسل ونسب کے بت پاش پاش ہو جاتے ہیں، من وتوکی تفریق ختم ہو جاتی اور امیر غریب کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔
دوسری طرف خوبی یہ ہے کہ ایک امام کی پیروی اس نظام کی روح ہے، لشکر اور فوج کوکمانڈر اور امیر کی اطاعت کی تعلیم دی جاتی ہے، ایک بگل پر اکٹھا ہونے کی مشق کرائی جاتی ہے، اس شعبہ پر لاکھوں کروڑوں روپے پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں، مگر پھر بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ پورا نظم وضبط باقی رہ سکے گا، لیکن نظامِ مساجد میں امام کی پیروی کا یہ حال ہے کہ اس سے اس کو کوئی مفر نہیں، دس سال کی عمر سے لے کر موت تک اس کی مشق ہوتی ہے، اور کمال یہ ہے کہ کسی دن ناغہ کا نام ہی نہیں، الا ما شاء اللہ۔ اجتماع کی شرکت کی دعوت دی
جاتی ہے تو ایسے کلمات سے، جو جاہ وجلال سے بھر پور ہوتے ہیں، جن میں عقیدہ کی تازگی، خالق کی بڑائی اور فلاح اور کامیابی کی یقین دہانی ہوتی ہے۔
اجتماعی نظام کا عملی تعطل:
ہاں! افسوس اس کا ہے کہ ہم نے اس نظام پر عمل ترک کردیا ہے، جو اس سے فائدے تھے اس سے ہم محروم ہیں، عہدِ رسالت اور عہدِ صحابہ کی تاریخ دیکھئے اس نظام کو کس قدر قبولیت حاصل تھی اور وہ کتنے بامراد اور کامیاب تھے۔ خلافتِ راشدہ تک آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ بہت ساری باتیں انہی مساجد کے ذریعے طے پاتی تھیں، خلیفہ کی پالیسی کا اعلان ان کے منبروں سے ہوتا تھا، گورنروں کے فرائض میں امامت بھی داخل تھی، یہ منصبی فرض گورنروں کا عہدِ عباسیہ تک ملتا ہے، جمعہ اور عیدین کی امامت بھی یہی کرتے تھے، خلفائے راشدین نے برابر امامت کی اور فاروق اعظم ؓ نے تو اسی منصب