یہ ہوگا کہ یہ ملکیت حسبتہً للہ ہو جائے گی اور سپردگی بحقِ مسجد ثابت ہو جائے گی۔ بعض ائمہ کہتے ہیں کہ وقف کے بعد قبضہ کے ثابت ہونے کے لیے باجماعت نماز ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ مقصود بالذات مسجد سے جماعت ہی کی نماز ہے، انفرادی طور پر تو ہر جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے، چناں چہ اذان واقامت کا مقصد بھی جماعت ہی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک ہی شخص نماز پڑھے، مگر اذان واقامت کے ساتھ، تو قبضہ کے لیے یہ کافی ہے۔ اور امام ابو یوسف ؒ کا یہ کہنا ہے کہ صرف واقف کا اعلان ہی مسجدیت کے لیے کافی ہے۔1
تولیت:
مسئلۂ تولیت میں واقف کو اختیار ہے کہ تولیت اپنے اور اپنے خاندان کے لیے محفوظ رکھے، یا وہ جس کو چاہے بخش دے۔ مگر جب متولی میں شرعی اعذار پیدا ہو جائیں گے تو اس کو اس عہدے سے بر طرف کردیا جائے گا، مثلاً: وہ غیر مامون ہو، عاجز ہو، فاسق ہو، یا فاجر کہ اس کو شراب پینے کی عادت ہوگئی، یا کیمیا میں مال خرچ کرنے لگا، تو ایسی صورت میں متولی کو تولیت سے علیحدہ کردینا ضروری ہے۔ کوئی متولی خائن ہو جائے تو اس کو بھی قاضی معزول کرسکتا ہے، اس طرح اگر کوئی متولی سال بھر پاگل رہے تو وہ خود بخود معزول ہو جائے گا۔ البتہ صحت یاب ہونے پر وہ دوبارہ متولی ہوسکتا ہے۔2
واقف نے اگر یہ شرط لگا دی ہے کہ تولیت اس کی اولاد در اولاد میں رہے گی تو جب تک اس خاندان سے کھلی ہوئی خیانت ثابت نہ ہو جائے، یا کوئی اور ایسا عذر محقق نہ ہو جائے جس سے معزولی جائز وضروری ہو، قاضی کسی اور کو متولی نہیں بنا سکتا ہے، اور اگر وہ ایسا بغیر کسی معقول عذر کے پائے جانے کے کرنا چاہے تو قاضی کا یہ فعل درست نہ ہوگا۔1 ہاں! جن اسباب کی بناء پر متولی کے علیحدہ کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے ان میں سے کوئی سبب یا عذر پایا جائے گا، تو قاضی اس کو علیحدہ کردے گا۔
جس وقف کی تولیت کسی متعین شخص یا خاندان سے مخصوص نہ ہو، یا انتخاب کا حق اہلِ مسجد پر ہو، تو اس وقت متولی ایسے شخص کو منتخب کیا جائے جو اس عہدے کا خواہاں نہ ہو، کیوں کہ جو عہدے کا خواہش مند ہوتا ہے وہ عموماً اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں رکھتا ہے، اور کسی فاسد نیت سے اس کا خواہاں ہوتا ہے۔