تجدیدِ مسجد:
ضرورت کے وقت تیار مسجد میں تصرف کرنا جائز ہے جب کہ مسجد اور نماز ہی کے لیے یہ تصرف ہو، جیسے پرانی عمارت توڑ کر نئی عمارت بنانا، مگر اس کے لیے قاضی کی اجازت شرط ہے، اور یہ بھی کہ ایسا اپنے اخراجات سے کرے، مسجد کے خزانے یا وقف سے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ اور یہ اجازت ان شرطوں کے ساتھ اہلِ محلہ ہی کو ہے، دوسروں کو نہیں۔ ہاں! جب خطرہ ہو تو غیر محلہ والے بھی کرسکتے ہیں۔5
اہلِ محلہ کو اس کی بھی اجازت ہے کہ مسجد کو سامان دیں، جیسے: چٹائی، دری، جانماز، روشنی اور پانی وغیرہ کا نظم، چاہے پینے کا ہو، چاہے وضو کا، مگر اپنے پاس سے، اور خود بانیٔ مسجد کرے تو دوسرے کو حق نہ ہوگا۔1
ناگہانی آفت یا مصیبت:
فقہا نے اس کی بھی صراحت کردی ہے کہ دفعتہ اگر کسی آفت کا نزول ہو جائے، یا کوئی بات ایسی پیدا ہو جائے جس سے مسجد کی ضرورت باقی نہ رہے، تو اس وقت تیار شدہ مسجد کو کیا کریں گے؟
جیسے آشوبِ زمانہ یا انقلاب دور نے ایسی حالت پیدا کردی کہ مسلم آبادی وہاں سے ختم ہوگئی، یا وہ حالات سے مجبور ہو کر چلے گئے، یا سب کے سب لقمۂ اجل ہوگئے، جس کی وجہ سے مسجد ویران ہوگئی، یا مسجد کی دیواریں گر گئیں، کوئی نہیں جو اس کی مرمت کرے، یا اس میں نماز پڑھے، مسجد کسمپرسی کے عالم میں ہے، ان جیسے تمام حالات میں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بایں ہمہ مسجد مسجد ہی رہے گی، اس میں کوئی دوسرا تصرف کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے۔ نہ یہ مسجد فروخت کی جاسکے گی، نہ نیلام ہوگی، نہ اسے بیچ کر اس کی قیمت سے دوسری مسجد بنائی جائے گی، اور نہ اس کا سامان اور مال واسباب دوسری طرف منتقل کیا جاسکے گا۔ اگر کوئی یہ سب کرنا چاہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ البتہ جب کسی ایسی مسجد کا سامان اور اسباب ضائع ہو رہا ہے، یا کسی ظالم وغاصب کے ظلم وغصب کا غالب خطرہ ہے، تو ایسی حالت میں اسباب کا دوسری مسجد کی طرف منتقل