کہ جماعت کی نماز کو شریعت میں کیا خصوصیت ومرکزیت حاصل ہے اور اس کی تاکید قرآن وحدیث میں کس اہمیت کے ساتھ آئی ہے؟
قرآن میں حکم:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
۱۔ {وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَO}1
اور نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ۔
اس آیت سے مفسرین نے جماعت کی نماز ثابت کی ہے۔ ’’بیضاوی شریف‘‘ میں ہے:
{وَرْکَعُواْ مَعَ لرَّٰکِعِینَ} أي في جماعتہم؛ فإن صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ بسبع وعشرین درجۃ؛ لما فیہا من تظاہر النفوس۔ (۱/۷۱)
اور نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ، یعنی ان کی جماعت کے ساتھ، کیوں کہ جماعت کی نماز منفرد کی نماز پر ستائیس درجے فضیلت رکھتی ہے، اس لیے کہ اس میں باہمی تعاون ہے۔
امام رازی ؒ تحریر فرماتے ہیں:
وثانیہا: أن المراد صلوا مع المصلین۔ وعلی ہذا یزول التکرار؛ لأن في الأول أمر تعالی بإقامتہا، وأمر في الثاني بفعلہا في الجماعۃ۔ (التفسیر الکبیر: ۱/۲۲۵)
دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز نماز پڑھنے والوں کے ساتھ پڑھو۔ اس مطلب کے لینے میں تکرار بھی ختم ہو جائے گی، گویا پہلی آیت میں اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیا، اور دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نماز باجماعت کا حکم فرمایا۔
علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ رکوع سے مراد یہاں نماز کا لینا جائز ہے، جس طرح سجود کا استعمال نماز کے لیے ہوتا ہے، اور معنی یہ ہوں گے کہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھا کرو، پھر ماحصل لکھتے ہیں:
کأنہ قیل: وأقیموا الصلاۃ وصلوہا مع المصلین لا منفردین۔ (کشاف: ۱/ ۵۳)
گویا یہ حکم دیا گیا کہ نماز قائم کرو اور اسے باجماعت ادا کرو، اکیلے نہ پڑھو۔