کے مسلمان نہادھو کر حسبِ استطاعت خوشبو لگا کر اپنے اپنے گھروں سے نکلے، مسجد کا راستہ ایک عمدہ منظر پیش کر رہا ہے، سب ہر طرف سے آکر ایک ہی گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ آج نسبتاً صاف ستھرے ہیں، چہروں پر وجاہت ہے اور چال میں وقار کی نمایاں جھلک، دیکھتے ہی دیکھتے بغیر کسی اشتہار اور اعلان کے مسجد بھر گئی، سب محلے کے مسلمان یکجا ہوگئے، سنتیں پڑھی گئیں اور لوگ تسبیح وتقدیس اور تلاوت میں مشغول ہوگئے۔
سینکڑوں، ہزاروں ایمانی شمعیں مل ملاکر جمع ہوگئیں، ان کی ملی جلی روشنی نے پوری مسجد کو نور سے بھر دیا، ہر ایک دل کی کلی کھل کر مسکرانے لگی اور ہر ایک کا عکس دوسرے کو منور کرنے لگا، بغض وحسد، عداوت ونفرت اور دوسری برائیوں کی تاریکی سیماب پا ہو چلی۔
امام نکلا، مؤذن نے اذانِ ثانی دے کر لوگوں کی توجہ امام کی طرف پھیر دی، وہ سامنے کھڑا تلقین کررہا ہے اور سب ہمہ تن متوجہ سن رہے ہیں۔ جب اس کی آواز میں تیزی ہوئی اور آنکھیں سرخ ہوگئیں تو پھر کتنے دل کانپ اٹھے، کتنے جسموں پر لرزہ پڑ گیا، خشیتِ الٰہی اور محبتِ مولیٰ کی ملی جلی کیفیت نے ایک عجیب سماں پیدا کردیا، خطبہ ختم ہوا، نماز ادا کی گئی، مگر کس شان سے؟ کہ آج جب ایک فرد (امام) اللہ اکبر کہتا ہے تو سارے شہر کے مسلمان اللہ اکبر کہتے ہیں، وہ جب رکوع میں جھکا تو سب کے سب بے چون وچرا رکوع کے لیے جھک گئے، اور جب وہ سجدہ میں گرا تو سب کے سب اکٹھے سجدے میں گر پڑے۔
دنیوی اور دینی اصلاح:
اس شان وشکوہ سے ہفتہ کی جو عبادت ادا کی گئی، اس میں زندگی کے ہر شعبہ کے ماہرین اور دینی ودنیوی دورِ حیات کے تجربہ کار شریک تھے، رؤسا، تجار، غربا، فقرا، علما، صوفیا اور وہ لوگ بھی جوق درجوق تھے جن کو علم وفضل سے کوئی مس نہیں۔
ہر ایک نے دوسرے کو عبرت وبصیرت کی آنکھوں سے دیکھا، اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا نقشہ کھینچ گیا، تاجروں اور رئیسوں کو مسلمانوں کی اقتصادی ومعاشی حالت کی طرف توجہ ہوئی، علمائے کرام کو علمی اور دینی سدھار کی فکر ہوئی، صوفیا کی نظر تزکیۂ قلوب کی طرف گئی، غریبوں میں محنت کی امنگ پیدا ہوئی، فقیروں کی خود داری میں جوش آیا، ان پڑھ اور جاہلوں کے دلوں میں اشتیاقِ علوم نے کروٹ لی اور بے عملوں میں عمل کا جذبہ ابھرا۔