جو اہتمام رہتا ہے شارعِ عام کی مسجد کو حاصل نہیں ہوتا۔ غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے اجتماع کے التزام اور اس کے عظیم الشان ہونے میں بھی مرتبہ کی بلندی مضمر ہے۔
مسجدوں کا قدرتی نظام:
انفرادی طور پر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور نفل نمازیں پڑھی جاتی ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت
کا تقاضہ ہوا کہ فرض نمازوں کو اجتماعی شکل دی جائے اور پر اگندہ ومنتشر افراد کی شیرازہ بندی کا مظاہرہ کیا جائے، اور قرآن نے تالیفِ قلوب1 کا جو احسان جتلایا ہے اس کا عملی طور پر بھی رات دن اعلان ہوتا رہے۔ چناں چہ اس کے لیے ایک مستقل نظام قائم کیا، جس قدرتی نظام میں سارے مومنوں کو حتی الوسع یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہم اس نظام کو نظامِ مسجد سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی عظمتِ شان دلوں میں بٹھانے کے لیے ابتدائے آفرینش سے اس سلسلے کو جاری فرمایا اور نبی کریم ﷺ کے ذریعے اس کو خوب مستحکم کردیا گیا، جس کی تفصیل آیندہ آئے گی۔ آپ نے اس نظام کی بنیاد خود اپنے ہاتھوں سے رکھی اور حکم فرما دیا کہ ہر ہر محلہ اور آبادی میں اس نظام کو پوری پختگی اور جرأت سے قائم کیا جائے، کیوں کہ اس میں دینی اور دنیوی، حسی اور معنوی بے شمار فائدے ہیں۔
اس نظام کی پختگی:
اس نظام میں جس کو ہم مسجد کہتے ہیں، بہت عمدہ تدریجی ترقی ملحوظ رکھی گئی ہے، ہفتہ بھر ہر محلہ اور ہر آبادی اپنے محلے اور گاؤں کی مسجد میں جمع ہو کر پنج وقتہ نماز ادا کرتی ہے۔ پھر یہ پانچ وقت ہر ایک کے لیے متعین ہیں، کوئی اس کے خلاف کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا، تاکہ ایک ہی وقت میں پوری دنیا اپنی اپنی جگہ عبادتِ الٰہی میں مشغول ہو۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ جس طرح دنیا میں کوئی شخص اکیلا نہیں پیدا ہوا ہے اور نہ تنہا کوئی کام انجام دے سکتا ہے، بلکہ